اسرائیلی وزیر خارجہ تسیبی لیفنی نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں امریکہ میں منعقدہ مشرق وسطی امن کانفرنس میں عرب ممالک کی شرکت کے لیے غیر ملکی اصرار محمود عباس پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھا- تل ابیب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کے تعاون کے بغیر صدر عباس اپنے بہت سے مطالبات سے دستبردار ہونے والے نہیں تھے-
چنانچہ عرب ممالک کے ذریعے یہ کام لیا گیا- وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ سولہ عرب ممالک کا اسرائیل کی دعوت پر مشرق وسطی امن کانفرنس میں شرکت ایرانی خطرے کے خلاف متحدہ محاذ کی طرف پہلا قدم ہے- عرب ممالک نے شرکت کر کے ثابت کردیا کہ وہ ایرانی ایٹمی پروگرام سے خائف ہیں اور اسے ہر صورت میں ختم کرنا چاہتے ہیں- انہوں نے کہا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی حتمی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا- اس سلسلے میں کسی بھی بیرونی دباؤ کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا-
اس سے قبل اسرائیلی وزیر خارجہ نے ’’کدیما‘‘ پارٹی کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ سولہ عرب ممالک سمیت حماس سے زائد عرب ممالک کی اس کانفرنس میں نمائندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا اسرائیل سے دوستی کی خواہاں ہے- انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں کانفرنس میں شرکت ہی کانفرنس کی کامیابی کی ضمانت ہے-
چنانچہ عرب ممالک کے ذریعے یہ کام لیا گیا- وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ سولہ عرب ممالک کا اسرائیل کی دعوت پر مشرق وسطی امن کانفرنس میں شرکت ایرانی خطرے کے خلاف متحدہ محاذ کی طرف پہلا قدم ہے- عرب ممالک نے شرکت کر کے ثابت کردیا کہ وہ ایرانی ایٹمی پروگرام سے خائف ہیں اور اسے ہر صورت میں ختم کرنا چاہتے ہیں- انہوں نے کہا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی حتمی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا- اس سلسلے میں کسی بھی بیرونی دباؤ کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا-
اس سے قبل اسرائیلی وزیر خارجہ نے ’’کدیما‘‘ پارٹی کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ سولہ عرب ممالک سمیت حماس سے زائد عرب ممالک کی اس کانفرنس میں نمائندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا اسرائیل سے دوستی کی خواہاں ہے- انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں کانفرنس میں شرکت ہی کانفرنس کی کامیابی کی ضمانت ہے-