چهارشنبه 30/آوریل/2025

اہل غزہ کو بش سے کوئی امید نہیں

ہفتہ 12-جنوری-2008

امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے نو جنوری کو بڑی دھوم دھام سے اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے کے دورے کا آغاز کیا- غزہ کے محاصرہ زدہ اس سارے منظر کو دیکھ رہے ہیں- انہیں اس کے سوا کوئی اور امید نہیں ہے کہ فوٹو اتروانے کا ایک اور سیشن ہو جائے گا- اس کے سوا کچھ نہیں-
ایجنسی فرانس پریس سے گفتگو کرتے ہوئے فلسطینی استاد سمایا زیندن نے کہا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جارج بش کے دورے کا کوئی مقصد سمجھ نہیں آتا- انہوں نے کہا کہ وہ عرب ممالک کو بے وقوف بنارہے ہیں گویا انہیں مسئلہ فلسطین میں دلچسپی ہے-
صدر بش کے دورے ایک ہفت روزہ دورے کا آغاز ہو چکا ہے اور اسرائیل کے بعد صدر بش کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر جائیں گے- پچیس سالہ سرکاری ملازم احمد سعدی نے کہا کہ بش ایک ایسے موقع اسرائیل آئے ہیں کہ جب سب کچھ ختم ہو چکا ہے- بش سے پہلے جب بل کلنٹن یہاں آئے تھے تو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کسی حد تک اعتماد پایا جاتا تھا جو اب نہیں پایا جاتا- اس وقت امید کی کرن باقی تھی-
نو برس قبل فلسطینی علاقوں میں سب سے پہلے غزہ کی پٹی کو موقع ملا کہ اپنے لیے ائیرپورٹ پر کسی امریکی صدر کا خیر مقدم کرے- بل کلنٹن نے اوسلو امن معاہدے کے پانچ سال بعد غزہ کا دورہ کیا تھا- اہل غزہ کو بش پر اعتماد نہیں کہ وہ 2009ء میں اپنی صدارتی مدت ختم ہونے سے پہلے مشرق وسطی میں قیام امن چاہتے ہیں تاہم ذین دین کا کہنا ہے کہ بل کلنٹن مسئلہ فلسطین کے حل میں مخلص تھے جبکہ بش دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ اس دورے سے ایک اور سیاسی فائدہ حاصل کرلیں-
انہوں نے کہا کہ اگر فتح اور حماس کے درمیان مفاہمت نہیں ہوتی اور غزہ کی پٹی مغربی کنارے سے دور رہتی ہے ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی بھی مفاہمت نہیں ہوئی-
وائٹ ہائوس کا کہنا ہے کہ صدر بش اناپولیس امن کانفرنس کے فالواپ کے طور پر اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا دورہ کررہے ہیں- لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ سات سالوں میں مسئلہ فلسطین پر جارج بش کوئی قابل عمل پیش رفت کرانے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اس مسئلے سے غفلت اختیار کررکھی ہے- ان کا خیال ہے کہ اناپولیس کانفرنس ایک رسمی اجلاس تھا جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا-
ابھی کانفرنس ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کئی بستیوں کی تعمیر شروع کردی تھی- غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائیوں میں گزشتہ نومبر سے سو افراد جاں بحق ہو چکے ہیں-
فلسطینی دکاندار طارق عبودیہ نے کہا کہ جب بل کلنٹن نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا کہ فلسطین مشرق وسطی میں ایک اہم علاقہ ہے اور ضرورت ہے کہ سب سے بڑی عالمی طاقت کا سربراہ یہاں کا دورہ کرے- عبودیہ دکاندار نے بتایا کہ دسمبر 1998ء میں بل کلنٹن کے دورے سے پہلے لوگوں نے اس کی دکان سے ہزاروں امریکی جھنڈے خریدے تھے- عبودیہ کا کاروبار ڈھیلا پڑچکا ہے اور غزہ میں لوگ اس لیے جھنڈے خریدتے ہیں کہ مظاہروں میں ان سے نفرت کا اظہار کریں تاکہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی و امریکی ناکہ بندی کے خلاف جذبات کا اظہار کریں-

مختصر لنک:

کاپی