امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دورہ مشرق وسطی کے دوران اپنے فلسطینی ہم منصب محمود عباس سے رام اللہ میں ملاقات کی-
اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ سے ملاقات کے بعد تل ابیب سے رام اللہ تک اور وہاں سے دوبارہ واپسی تک فلسطینی سیکورٹی اہلکاروں کو صدر بش کے قریب تک بھی نہیں آنے دیا گیا- چنانچہ صدر بش کے سیکورٹی کے تمام فرائض امریکی اور اسرائیلی فوج اور خصوصی کمانڈوز کے سپرد تھے- فلسطینی صدر محمود عباس نے اس دوران امریکہ اور اسرائیلی سیکورٹی حکام کو سیکورٹی کے فرائض کی انجام دہی کے لیے خصوصی اجازت فراہم کی تھی جبکہ اپنے زیر کمانڈ سیکورٹی حکام مشکوک ہونے کے باعث صدر بش کے قریب آنے پر سخت پابندی تھی-
دوسری جانب رام اللہ میں صدارتی ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ملاقات میں انتہائی قابل اعتماد اور امریکہ سے گہرا تعلق رکھنے والے افراد ہی کی رسائی کو ممکن بنایا گیا تھا اورکسی بھی شخص کے معمولی سے بھی مشکوک ہونے کے باعث اسے صدارتی محل میں داخلے کی اجازت نہیں تھی-
امریکی صدر کی رام اللہ آمد کی وجہ سے سڑکوں کے اردگرد موجود درختوں کا بھی صفایا کردیا گیا تھا کہ مبادا کوئی مزاحمت کار ان درختوں کی آڑ میں صدر بش پر حملہ ہی نہ کردے- اس کے علاوہ جن راستوں سے صدر بش کی آمد و رفت تھی ان کی کئی کئی بار خصوصی چیکنگ اور صفائی کی گئی- غرب اردن کے اہم مقامات پر امریکی اور اسرائیلی فوج تعینات تھی- رام اللہ صدارتی ہیڈ کوارٹر کے نواح کی تمام عمارات کو کئی دن پہلے ہی خالی کرا کے امریکی اور اسرائیلی سیکورٹی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا- اس دوران امریکی خفیہ ایجنسیوں اور اسرائیلی کمانڈوز کو کھل کھیلنے پورا موقع فراہم کیا گیا-
صدر بش کی آمد کے موقع پر غرب اردن کے پولیس چیف کرنل عدنان ضمیری نے سختی سے تمام سڑکوں کی ناکہ بندی کر کے کرفیو کی فضاء پیدا کردی گئی- شہریوں کو نہ صرف گھروں سے نکلنے سے روکا گیا بلکہ مکانوں کی چھتوں پر چڑھنے پر بھی پابندی لگادی- صدر بش کی سخت ترین زمینی سیکورٹی میں ہیلی کاپٹروں سے بھی مدد لی گئی- صدر بش کے رام اللہ آمد سے قبل اور واپس تل ابیب پہنچنے تک ہیلی کاپٹر فضاء میں موجود رہے-
اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ سے ملاقات کے بعد تل ابیب سے رام اللہ تک اور وہاں سے دوبارہ واپسی تک فلسطینی سیکورٹی اہلکاروں کو صدر بش کے قریب تک بھی نہیں آنے دیا گیا- چنانچہ صدر بش کے سیکورٹی کے تمام فرائض امریکی اور اسرائیلی فوج اور خصوصی کمانڈوز کے سپرد تھے- فلسطینی صدر محمود عباس نے اس دوران امریکہ اور اسرائیلی سیکورٹی حکام کو سیکورٹی کے فرائض کی انجام دہی کے لیے خصوصی اجازت فراہم کی تھی جبکہ اپنے زیر کمانڈ سیکورٹی حکام مشکوک ہونے کے باعث صدر بش کے قریب آنے پر سخت پابندی تھی-
دوسری جانب رام اللہ میں صدارتی ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ملاقات میں انتہائی قابل اعتماد اور امریکہ سے گہرا تعلق رکھنے والے افراد ہی کی رسائی کو ممکن بنایا گیا تھا اورکسی بھی شخص کے معمولی سے بھی مشکوک ہونے کے باعث اسے صدارتی محل میں داخلے کی اجازت نہیں تھی-
امریکی صدر کی رام اللہ آمد کی وجہ سے سڑکوں کے اردگرد موجود درختوں کا بھی صفایا کردیا گیا تھا کہ مبادا کوئی مزاحمت کار ان درختوں کی آڑ میں صدر بش پر حملہ ہی نہ کردے- اس کے علاوہ جن راستوں سے صدر بش کی آمد و رفت تھی ان کی کئی کئی بار خصوصی چیکنگ اور صفائی کی گئی- غرب اردن کے اہم مقامات پر امریکی اور اسرائیلی فوج تعینات تھی- رام اللہ صدارتی ہیڈ کوارٹر کے نواح کی تمام عمارات کو کئی دن پہلے ہی خالی کرا کے امریکی اور اسرائیلی سیکورٹی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا- اس دوران امریکی خفیہ ایجنسیوں اور اسرائیلی کمانڈوز کو کھل کھیلنے پورا موقع فراہم کیا گیا-
صدر بش کی آمد کے موقع پر غرب اردن کے پولیس چیف کرنل عدنان ضمیری نے سختی سے تمام سڑکوں کی ناکہ بندی کر کے کرفیو کی فضاء پیدا کردی گئی- شہریوں کو نہ صرف گھروں سے نکلنے سے روکا گیا بلکہ مکانوں کی چھتوں پر چڑھنے پر بھی پابندی لگادی- صدر بش کی سخت ترین زمینی سیکورٹی میں ہیلی کاپٹروں سے بھی مدد لی گئی- صدر بش کے رام اللہ آمد سے قبل اور واپس تل ابیب پہنچنے تک ہیلی کاپٹر فضاء میں موجود رہے-