چهارشنبه 30/آوریل/2025

بش کا دورہ مشرقی وسطی- ایک نئی کشیدگی کا پیش خیمہ

جمعہ 25-جنوری-2008

گزشتہ دنوں امریکی صدر جارج ڈبلیوں بش اپنے اقتدار کے اختتام پر مشرق وسطی کے اہم حلیف ممالک کے دورے پر  پہنچے-
اپنے اس دورے کے دوران میں صدر بش نے حماس،حزب اللہ، ایران اور شام کو خوب لتاڑا اور انہیں دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا دکھاوے کے طورپرانہوں نے جمہوری نظام اور اس کے اقدار کی  تعریف بھی کی  فلسطینی اور عرب عوام کو خوش کر نے کے لئے اوسلو اور کیمپ ڈیوڈ سمجھوتوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا  مژدہ بھی سنایا- اپنی تقاریر میں امریکی صدر نے یہ ثابت کر نے کی کو شش بھی کی کہ انہیں اسلام سے بڑی محبت ہے ،البتہ دہشت گردوں نے اسے ہائی جیک کر لیا ہے جس پر انہیں سخت تشویش ہے- دورے کے دوران ہی میں اسرائیل نے پے در پے حملے کر کے درجنوں نہتے فلسطینیوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کردیا – فلسطینوں کے اس قتل عام پر صدر بش نے اسرائیل کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی-
افسوس کہ امریکی صدر ایک مرتبہ پھر حقائق کا ادراک کر نے میں ناکام رہے اور مشرق وسطی کو اسرائیل کی آنکھ سے ہی دیکھتے رہے ،اسرائیل جن تنظیموں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے ،بش کی زبان سے انہیں دھمکیاں دلوا کر ایک مر تبہ پھر یہ ثابت کیا کہ امریکہ کا صدر اسرائیل کا تابع ہے اور مشرق وسطی اور دنیا کا وہی نقشہ امریکی صدر دیکھتا ہے جو اسرائیل اور صہیونی لابی اسے دکھانا پسند کر تی ہے- یوں عرب دنیا کو یہ باور کرایا گیاکہ اسرائیل خطے کی ایک بڑی طاقت ہے اور تمہاری آخریت اسی میں ہے کہ اس کی تابعداری کرو -امریکی قیادت کی اس حماقت کی وجہ سے اس وقت دنیا فساد میں گھر چکی ہے – طاقت کے نشے میں امریکی صدر یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ  جس حماس کی مذمت کر تے ہوئے اسے مطعون ٹھہرایا،وہ عرب اور مسلم عوام  کے دلوں کی دھڑکن ہے –
 جہاں امریکی آشیر باد سے شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی سمیت حماس اور الجہاد کے قائدین اور  ذمہ داران کو شہید کر کے اسرائیل  نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ،لیکن وہیں کروڑوں عرب نوجوانوں کے دلوں میں غیظ و غضب کے بیج  بھی بوئے جس کے نتیجے میں فلسطینی تحریک مزاحمت میں مزید شدت پیدا ہوئی- اسرائیل امت مسلمہ کے سینہ پر ایک ناسور ہے جس کے قیام کے لئے امریکہ اور برطانیہ کی سر پرستی میں مغربی طاقتوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا جو پوری دنیا میں مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے بالخصوص عرب ممالک  کی آبادی کا ایک بڑاحصہ فلسطینیوں پر مشتمل ہے جو اس صدمہ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے، پھر عرب ہی نہیں  دنیا میں جہاں کہیں مسلمان موجود ہیں، قبلہ اول پر یہودی تسلط کو کبھی براداشت نہیں کر سکتے ہیں، پھر بیت المقدس کو منہدم کر کے یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کے منصوبے پر مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی سرآپا احتجاج ہیں- یہی وجہ ہے کہ بش کے حالیہ دورہ ء بیت المقدس کے موقع پر کیتھولک چرچ کے بڑے پادری نے ان کا استقبال کر نے سے انکار کردیا –
عرب اور مسلم عوام  دامے درمے قدمے سخنے اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینیوں کی مددکرناچاہتے ہیں -پہلے الفتح کی مدد کر تے رہے لیکن جب اس نے اوسلو معاہدے کے بعد اپنے بنیادی اہداف کو ترک کرتے ہوئے ،اسرائیلی اورامریکی شرائط پر محض چند کلیوں پر قناعت کر لی تو حماس کی شکل میں مزاحمت کی تحریک ابھری  جسے فلسطینی اور عرب عوام امیدوں کا مرکز سمجھتے ہیں،اس کی قربانیوں اور عوامی خدمت اور موقف پر استقامت کی وجہ سے مشکلات کے باوجود فلسطینی عوام اسے آنکھوں پر بٹھاتے ہیں-
 یہی وجہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں حماس نے %70 سے زائد ووٹ  حاصل کئے- ظلم کے مقابلے میں عزیمت اور استقامت کی علامتی اس تحریک کو برا بھلا کہنا ،دھمکیاں دینا اور اسے کچلنے کے لئے اسرائیل کو کھلم کھلا آشیرباد دینا اس بات کا اظہار ہے کہ صدر بش طاقت کے نشے میں بدمست ہیں یا صہیونیوں نے ان کی عقل کو اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز کر نے سے ہی قاصر ہوگئے-
 اس لئے اس دورے کے بعد اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ اسرائلی جارحیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ فلسطینی تحریک مزاحمت کو اور موثر بنائیں گے اور فلسطین اور عرب ممالک میں تشدد کے ماحول میں مزید اضافہ ہو گا-
اسی طرح حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا بھی صدر بش کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے -حز ب اللہ کے قائد حسن نصراللہ کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں ،راقم کو کئی مرتبہ لبنان کا دورہ کر نے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت بھی ہو ئی کہ حزب اللہ اور حسن نصر اللہ شیعہ پس منظر کے باوجود تمام لبنانیوں میں یکساں طور پر مقبول ہیں ،اسلامی ،آزاد خیال شیعہ سنی مسلمان اور عیسائی لبنان کے تمام شہری حزب اللہ کو اپنا نجا ت دھندہ سمجھتے ہیں -اس لئے کہ یہ حزب اللہ ہی ہے جس نے جہاد کے ذریعہ جنوبی لبنان کے ایک تہائی رقبہ کو اسرائیلی قبضے سے آزادی دلوائی اور تازہ اسرائیلی جارحیت کا اس  نے جس استقامت  سے مقابلہ کیا  اوراسے شکست سے دوچار  کیا ، اس پر پوری دنیا  نے اس کی تحسین کی –
اپنے اس کر دار کی وجہ سے حز ب اللہ نہ صرف لبنان اور فلسطینی عوام میں مقبول ہے بلکہ تمام عرب ممالک کے عوام اسے اور اس کے قائد حسن نصر اللہ کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں – چنانچہ حز ب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے پر حسن نصر اللہ نے صدر بش کی طرف اس الزام کو اپنے لئے  اعزازقرار دیا- فلسطینی اور عرب عوام کے ان ہیروز کو دھمکیوں اور گالیوں  پر اسرائیل تو خوش ہے اور اس نے صدر بش کو شاباش بھی دی ہو گی ،لیکن یہ دورہ جو نئی آگ بڑھکا گیا ہے،اس کے اثرات ظاہر ہو نے میں چنداں دیر نہ لگے گی-اسی طرح ایران کی قیادت کو مطعون کرنا اور اسے دھمکیاں دینے کاعمل بھی مسلم عوا م کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے-
امریکی جارحیت کے مقابلے میں ایرانی قیادت نے جس تدبر اور استقامت کا ثیوت دیا اس کی وجہ سے پوری مسلم اور تیسری دنیا میں عوام صدر احمد ی نژاد کو ایک رول ماڈل سمجھتے ہیں – لھذا اسے برا بھلا کہنے سے ظاہر ہے کہ بش نے اپنے اور امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافے ہی کو دعوت دی ہے ،اسی طرح ایران اور شا م کو حماس اور حزب اللہ کے  ساتھ تعاون  کرنے پر برا بھلا کہنے سے بھی اپنی ساکھ کو مزید خراب کیا ہے
  خلاصہ یہ ہے کہ بش کے حالیہ دورے سے اس موقف کو تقویت ملی ہے کہ امریکی قیادت کی بھاگیں اسرائیل کے ہاتھ میں ہیں تاریخی اور زمینی حقائق کو نظر انداز کر نا جس کا وطیرہ بن چکا ہے نیزیہ کہ امریکہ اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے والے مسلم حکمران بھی مسلمانوں اور فلسطینیوں کے وفادار نہیں ہیں بلکہ  اپنے ذاتی اور خاندانی اقتدار کے تحفظ کے لئے امریکہ کی تابعداری میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں-
یوں بش کے اس دورے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کو عوام کی طرف سے مزید حمایت حاصل ہو گی- مادی وسائل کے لحاظ سے بھی اور انسانی وسائل کے لحاظ سے بھی – ایک خط کے ذریعے ان سب کو بش کا شکریہ ادا
کرنا چاہئے –

مختصر لنک:

کاپی