چهارشنبه 30/آوریل/2025

فتح اور حماس کا اتحاد وقت کی ضرورت

ہفتہ 26-جنوری-2008

غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بربریت سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی منصوبے ایک بار پھر بے نقاب ہوگئے ہیں- بلاشبہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف ہمیشہ ایسے ہی اقدامات کئے ہیں ، اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی فوجی اقدامات کامقصد یہ رہا ہے کہ ساری آبادی کو تباہ و برباد اور نیست و نابود کردیا جائے – اسرائیل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جبر وتشدد اور فوجی کاروائیوں کا ایک سلسلہ ہے جس پر اسرائیل عمل پیرا ہے –
غزہ کی پٹی میں روزانہ قتل وغارت کو کدیما پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ اور لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایہود اباراک کے درمیان مقابلے کی صورت میں دیکھنا چاہیے- ایہو داولمرٹ اور ایہودباراک دونوں ہی مصدقہ جنگی مجرم ہیں-  ایہو د باراک اس بات پر تلے بیٹھے ہیں کہ انہیں اسرائیل کے اگلے وزیراعظم کا منصب مل جائے ، انہوں نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے قتل و غارت اور معذور کردینے کا سلسلہ شروع کررکھاہے ، ہر گھنٹے، ہردن فلسطینیوں کا قتل ہو رہاہے –
اسرائیل کے مظالم میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں ، ان میں سب سے نمایاں فلسطینیوں کے دودھڑوں حماس اور فتح کے درمیان پائی جانے والی تفریق ہے ، جس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے – دنیا میں شاید کہیں اور اس کی مثال نہیں ملتی کہ کسی ملک کا ’’صدر ‘‘ اس کے مشیر اور معاونین دشمن ملک کے عہدیداران سے ملاقات کریں ، معانقے ، مصافحے اور بوسوں کا تبادلہ کریں جبکہ ان کے اپنے لوگ ،عورتیں اور بچے وسیع پیمانے پر اسی دشمن کے ہاتھوں جاں بحق ہور ہے ہوں -کوئی بھی سمجھدار شخص کیسے یقین کرسکتاہے کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں کے قتل عام کو ختم کرسکتاہے جبکہ غزہ کی پٹی میں قائم حکومت کو ختم کرنے کے لئے رام اللہ کی حکومت ،اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہی ہے – کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ فتح کی حکوت نے اسرائیل کے ساتھ ملکر کاروائی اور عوامی مقامات میں دھماکہ خیز مواد رکھوایا ہے تاکہ جب یہ بارود پھٹے تو معصوم لوگ جاں بحق ہوجائیں-
فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین کا غزہ میں اسرائیلی کاروائی کی مذمت کا بیان خوش آئند ہے یہ بھی ایک اچھی علامت ہے کہ رام اللہ میں قائم حکومت نے صہیونی بربریت کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے لئے تین دن سوگ کااعلان کیا ہے – علاوہ ازیں سلام فیاض نے محمودالزہار کے دوسرے بیٹے حسام کی اسرائیلی نازی حملوں کے ہاتھوں شہادت پر فاتحہ خوانی کی – خیر سگالی کا سلسلہ یہی ختم نہیں ہونا چاہیے-
 فلسطینی لوگ شہدا کے خون کو مدنظر رکھتے ہوئے رام اللہ حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی میں قائم حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فی الفور آغاز کردے – اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ جمہوری طریقے پر منتخب اسماعیل ھنیہ کے قتل کے لئے تیارکی گئی سازش کے محرکین کو تلاش کریں- فتح نے اعلان کیا ہے کہ ان کی تنظیم کا اسماعیل ھنیہ کے قتل کی سازش سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم فتح کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو سر سے پائوں تک حماس کی نفرت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہر قیمت پر حماس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں-فلسطینی لوگ چاہتے ہیں کہ محمود عباس اور سلام فیاض فوری طورپر مفاہمت کے سلسلے کاآغاز کریں کیونکہ اگر حماس سے مفاہمت نہیں کرنا ہے تو سلام فیاض کی جانب سے محمود الزہار کے بیٹے کی شہادت پر تعزیت کا اظہار بے معنی رہ جاتاہے –
اسماعیل ھنیہ کے قتل کی سازش تیار کرنے والوں کی تلاش سے غزہ اور مغربی کنارے میں دوریاں ختم ہوں گی ، اس کے برعکس الزامات درالزامات سے ساری صورت حال دریا برد ہوجائے گی – اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پہلا قدم کون اٹھائے گا – یہ سوال اس وقت بے معنی ہوجاتاہے کہ جب فلسطینیوں کے بچے ، بچیاں ،عورتیں اور مرد درجنوں کے حساب سے شہید ہو رہے ہیں اور اسرائیلی دشمن ، اخلاقیات کی الجبر سے بھی واقف نہیں ہے تاہم یہ یقین ہے کہ جو جماعت بھی ذاتی عنا کو ایک طرف رکھ کر فلسطینیوں کے قومی مفاد کے لئے آگے بڑھ کر کام کرے گی اس کو خصوصی قیام مقام ضرور ملے گا – غزہ کے لوگوں کا اور مغربی کنارے کے لوگوں کا مشترکہ دشمن اسرائیل ہے ، جس نے ان دونوں شہروں کو ’’انسانی باڑوں ‘‘میں تبدیل کردیا ہے – فلسطینی غزہ میں رہتے ہوں یا مغربی کنارے میں اسرائیل کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ان فلسطینیوں کو موت کے منہ میں پھینک دینا چاہیے – اسرائیل کے ایک ایرانی نسل کے مذہبی راہنما ربی نے فلسطینیوں اور عربوں کے لئے ’’گدھوں ‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا –
دائیں بازو کے اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ ‘‘کی رپورٹ کے مطابق ربی تیزاک نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ ’’عرب گدھے اوردرندے ہیں وہ کمتر ہیں، ان کے اندر سامنے کازہر موجود ہے – عرب ناپاک لوگ ہیں ، سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ رب نے انہیں کیوں پیدا کیاہے ؟ ان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ گدھوں کی طرح وزن اٹھائیں ،ان کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ہمارے سکولوں میں پڑھیں –
یہ صرف ایرانی نسل ربی کی بات نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج کے کم سے کم تر سپاہی سے لے کر اعلی سے اعلی جرنیل تک سب کے فلسطینیوں کے بارے میں یہی خیالات ہیں – فتح اور حماس ان حقائق کو مد نظر رکھیں تو فلسطینیوں کے موجودہ حالات تبدیل ہوسکتے ہیں-

مختصر لنک:

کاپی