چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینیوں کے لئے ترکی اپنا کردار ادا کرے

جمعہ 8-فروری-2008

فلسطینیوں نے ترک حکام کی جانب سے ان بیانات کا خیر مقدم کیا ہے جن میں غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی پر شدید تنقید کی گئی ہے جس کی وجہ سے غزہ کی پٹی کے پندرہ لاکھ باشندے قحط کے دروازے تک پہنچے ہیں- گزشتہ ہفتے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے کہاتھاکہ ’’غزہ کی پٹی کے شہری حقیقتاً ’’ انسانی المیے ‘‘کے نزدیک پہنچ چکے ہیں ،غزہ  آسمان کے نیچے کھلی جیل کی شکل اختیار کرچکاہے – غزہ کے لوگ پانی، بجلی ،ادویات اور خوراک مہیا نہ ہوسکنے کے سبب شدید مشکلات کاشکار ہیں اور یہ لوگ انسانی المیے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں –
اردگان نے اسرائیل کے اس بیان کو مسترد کردیا کہ کیونکہ غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر میزائل پھینکے جاتے ہیں اس لئے غزہ کی ناکہ بندی کرنے میں اسرائیل حق بجانب ہے – انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ان حملوں سے کتنے اسرائیلی جاں بحق ہوئے ، انہوں نے کہاکہ یہ ناقابل فہم ہے کہ چند افراد کے اقدام کی سزا بیس لاکھ لوگوں کو دی جائے –
اس ہفتے ترکی کی چھ اہم رفاہی تنظیموں کے نمائندوں نے غزہ کا دورہ کیا تا کہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرسکیں اورغزہ کے شہریوں کی حالت زارکا بذات خود مشاہدہ کرسکیں ، ترک تنظیموں کے نمائندوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ اسرائیل کی لگائی گئی پابندیوں کے باوجود وہ غزہ میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے – وفد کے ایک رکن نے کہاکہ ترک اعوام ، کئی طریقوں سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے ہیں اور وہ فلسطینیوں کے ساتھ  آئندہ بھی اظہاریکجہتی کرتے رہیں گے –
ترکی کی حکومت نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے ضروری ہے کہ دیگر مسلم ممالک بھی اسی راستے پر چلیں اور امریکہ کے اشارہ ابروپر چلنے سے انکار کردیں – ترکی کی حکومت کو چاہیے کہ اسرئیل نے مسلسل کارروائیوں کے ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے اس کو رکوانے کے لئے اسرائیل پر ہر ممکن دبائو ڈالا جائے –
حالیہ سالوں میں اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے یا معذور بنایا ہے ، فلسطینیوں کی جورہی سہی معیشت تھی اس کو تباہ کردیا ہے اور دیہاتوں ،شہروں کو نظربندی کیمپوں میں تبدیل کردیا ہے – اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں نئی یہودی  آبادیوں کے قیام کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے اور اس کامقصد صرف یہ ہے کہ ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کا وجود سامنے نہ آ سکے – یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ اسرائیل دعوی کرتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق ریاست کو تسلیم کرتاہے نیز یہ کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن کے لئے تیار ہے – تمام دنیا کو خصوصاً ترکی کو ان جھوٹے دعوئوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے – اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن چاہتاہے تو پھر وہ نئی بستیاں کیوں تعمیر کر رہی ہے –
ترکی کی فلسطین کے حوالے سے کئی ذمہ داریاں ہیں – مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ترکی النسل ہزاروں خاندان ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی گولوں ،گولیوں اور بموں کا سامنا کررہے ہیں ، اس اقدام سے ترکی کے یورپی یونین ،امریکہ اور دیگر ممالک سے تعلقات خراب نہ ہوں گے – اسرائیل کو ترکی کی زیادہ ضرورت ہے – ترکی کو اسرائیل کی کم ضرورت ہے – اسرائیل کی کوشش رہی ہے کہ وہ ترکی کے مفادات کو جس طرح ہوسکے نقصان پہنچائے – اسرائیل نے عراقی کردستان میں موساد کا دفتر قائم کررکھاہے – اسرائیل کرد علیحدگی پسندوں کی عربوں اور ترکوں کے خلاف امداد کررہاہے – سال 2006ء میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی کے افسران ترکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ ملاقات کرتے رہے ہیں تاکہ طیب اردگان کی حکومت کو وجود میں  نے سے روکا جاسکے ، اے کے پارٹی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو اسرائیلی لیڈروں نے داخلی طور پر خوب سراہا -ترکی کوچاہیے کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی امداد کرے ، ترکی کو چاہیے کہ وہ امریکہ سے اپنے تعلقات کو اسرائیل پر دبائو ڈالنے کے لئے استعمال کرے تاکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کا سلسلہ بند کردے-

مختصر لنک:

کاپی