مجرم فرد اور مجرم ریاست کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے؟ پہلے زمانے میں راہزن، بندوق اور پستول کی نوک پر لوگوں سے رقم چھین لیتے تھے- مشرق وسطی کی ’’واحد جمہوریت، اسرائیل‘‘ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے-
11 فروری کو روز روشن میں اسرائیلی قابض فوجیوں نے مغربی کنارے میں موجود گھروں، رقم تبدیل کرنے والے دفتروں اور دیگر کاروباری اداروں کا گھیرائو کرلیا اور فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس کی ماتحت ملیشیا نے تمام لوگوں سے کہا کہ وہ اگلے حکم تک اپنے اپنے دفتر میں رہیں-
اسی کا نشانہ بننے والے الخلیل کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ محمود عباس ملیشیا نے ٹھگوں، مجرموں اور جرائم پیشہ عناصر کا کردار ادا کیا ہے- محمود عباس ملیشیا کے ہاتھوں نقصان اٹھانے والے ایک اور دکاندار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ملیشیا کے لوگوں کے پاس بندوقیں تھیں، وہ میری دکان میں گھس آئے اور مجھے سے مطالبہ کیا کہ میں رقم انہیں دے دوں- جنرل سٹور چلانے والے اس کے ہمسائے نے کہا کہ محمود عباس ملیشیا کے سپاہیوں نے اردنی دینار، اسرائیلی شیکل اور امریکی ڈالر سمیت تمام رقم لوٹ لی اور فرار ہوگئے- جس طرح پرانی امریکی فلموں میں دکھایا جاتا ہے- انہوں نے ڈاکوئوں کی طرح رقم لوٹ لی اور یکدم غائب ہوگئے- اس دکاندار نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قبضہ عصمت دری کے مترادف ہے اور محمود عباس ملیشیا کے جو لوگ اس کی تابعداری کررہے ہیں وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں- اس دکاندار نے کہا کہ اسرائیلی جو چاہتے ہیں کرتے ہیں- ہمارے بچوں کو قتل کرتے ہیں- ہمارے گھر گرادیتے ہیں، ہماری عمارتیں مسمار کردیتے ہیں، ہماری رقم اٹھا لیتے ہیں اور جب ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور ہمیں سامان کی طرح اٹھا کر جیل میں ڈال دیتے ہیں- گھروں پر حملہ کرنا، کاروبار بند کردینا اور رقم چھین لینا ایسے جرائم ہیں کہ جو صرف اسرائیل کے ساتھ نتھی ہیں- اسرائیلی وزیر داخلہ نے حکم دیا کہ مشرقی بیت المقدس میں کئی فلسطینیوں کو اغواء کرلیا، ان کا جرم یہ تھا کہ کہ انہوں نے اسرائیلی ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی کہ مسجد اقصی کے قرب و جوار میں واقع قدیم تاریخی آثار کو مسمار ہونے سے بچایا جائے- ان فلسطینیوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا- ایک اسرائیلی عدالت نے گزشتہ ہفتے فیصلہ دیا تھا کہ 13 اسرائیلی عرب شہریوں کو اکتوبر 2000ء میں قتل کرنے والوں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے- یہ لوگ مغربی کنارے میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے- قتل کرنے والے فوجیوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے عرب اسرائیلیوں کو بغیر کسی جرم کے قتل کیا تھا- ان حالات میں عدالتوں سے رجوع کرنے کا کیا انجام ہوگا سب جانتے ہیں- آئین اور قانون سے محبت کرنے والا ہر شہری اسرائیل کے غیر قانونی رویے کو پسند نہیں کرتا-
ہم اسرائیل کے بارے میں بات کررہے ہیں کہ جہاں بچوں کو قتل کرنے والے مجرموں کو نہ صرف چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ انہیں ان جرائم کے بدلے میں انعام بھی دیا جاتا ہے- بارہ سالہ ایمان الحمص اور اس کے قاتل کیپٹن آرکا معاملہ جانا پہچانا ہے کہ مجرمھ کو سز نہیں ملی-
اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف مظالم اور جرم و ستم کا معاملہ سامنے آتا ہے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ شروع کہاں سے کیا جائے اور ختم کہاں کیا جائے- سر سے لے کر پائوں تک اسرائیل ایک ظالم اور متشدد ریاست ہے اور ظلم و تشدد اور قتل و غارت اس کا معمول ہے- نوبل انعام حاصل کرنے والے شمعون پیریز سے لے کر ایہود اولمرٹ تک، ایہود باراک سے ھائم رامون تک ایک طویل فہرست ہے جو کھلم کھلا غزہ کو ختم کرنے اور پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو صحرائے سینا میں پھینک دینا چاہتے ہیں- اڈولف ہٹلر، جوزف سٹالن، گنگرچ یاگودا، لازارکگا نووچ اور اجتماعی قتل کرنے والے کئی بدنام افراد نے دوسرے انسانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ یہ کہہ کر اتارا کہ ہم انسانیت کی بھلائی کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں-
عالمی ضمیر کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کو ظلم و ستم سے روکنا ہے یا خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا ہے- اسرائیلی جنگ مجرموں کی جانب سے دی جانے والی ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا جائے یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کررکھی ہے اور غزہ کی پٹی کو اس قسم کی حصار بندی میں دبا رکھا ہے کہ 1948ء سے اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا- 1948ء میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کو وہاں سے جانے نہ دیا اور جانے والوں کو ہلاک کردیا تھا- صہیونی غزہ میں پوری نسل ختم کردینا چاہتے ہیں- اس سے انکار ممکن نہیں ہے کوئی ایسی قوت نہیں ہے کہ جو انہیں اس ظالمانہ اقدام سے روک سکے-
