اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کئی ماہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے وہاں موجود فلسطینی پانی، بجلی اور خوردنی اشیاء سے محروم ہیں- جب فلسطینی اپنے وجود کی بقاء کیلئے لاکھوں کی تعداد میں مصر کی جانب کوچ کرنے لگے تو مصر کی فوج نے ان کی آمد روک دی- دریں اثناء یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچا- اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کے بعد وہاں پیدا ہونے والی صورتحال اور انسانی المیہ پر 8 روز تک مذاکرات ہوتے رہے-
آخر میں اسرائیل کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے کی بجائے سلامتی کونسل کا یہ اجلاس ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا اور اس انسانی المیہ پر متفقہ بیان تک منظور نہیں کیا جاسکا- ادہر جدہ میں تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کی جانب سے غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر 3 فروری کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا- ایران کے مطالبے پر بلائے گئے اس ہنگامی اجلاس میں غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال کیلئے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرانے کی رسمی خانہ پری کردی گئی اور اقوام متحدہ سے یہ اپیل کی گئی کہ فلسطینیوں کی فاقہ کشی اور زبوں حالی ختم کرنے کیلئے وہ فوری طور پر حرکت میں آئے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ سے لے کر وہاں توڑے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ کی حیثیت محض تماشائی کی سی رہی ہے- آج تازہ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف غزہ میں فلسطینی دانے دانے کو محتاج ہیں اور فلسطینی بچے پیاس سے دم توڑ رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیلی فوجی طیارے بمباری کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارہے ہیں- غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کا یہ قصور ہے کہ انہوں نے گزشتہ الیکشن کے دوران حماس کو ووٹ دے کر مسند اقتدار تک پہنچایا تھا- یہ بات صرف اسرائیل اور امریکہ کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو پسند نہیں آئی- اس لیے فلسطین میں حماس کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد امداد دینے والے ممالک نے احتجاجاً فلسطین کی امداد بند کردی تھی، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے-
گزشتہ ستمبر 2007ء عائد اقتصادی پابندیوں کے باعث غزہ کی دو تہائی آبادی اس وقت غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے- عالمی ادارہ خوراک کے زیر اہتمام جنیوا میں چند ماہ قبل ہونے والی تجارت اور ترقیات سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو فلسطین کی نصف آبادی بیروزگار ہو جائے گی، لیکن اس اپیل کے باوجود عالمی برادری اور یہاں تک کہ عالم اسلام کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی- نتیجے کے طور پر آج غزہ میں مفلسی اور بھوک کا راج ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے باشندوں میں عزم و ہمت اور استقلال کی کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی-
کچھ عرصہ قبل بعض یہودی دانشوروں نے کہا تھا کہ حماس اور فتح باہمی ٹکراؤ میں جس طرح مبتلا ہوگئے ہیں اور جس کے نتیجے میں فلسطین کا علاقہ غزہ اور مغربی کنارہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے، یہ صورتحال وسیع تر اسرائیلی مملکت کے قیام کے لیے آئیڈیل ہے- لہذا اسرائیلی حکمرانوں کو چاہیے کہ اس موقع سے جلد از جلد فائدہ اٹھا کر وہ اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کرلیں- یہودی دانشوروں کے اس مشورہ کی تکمیل کرلیں- یہودی دانشوروں کے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین کے حوالے سے اپنی کوششیں تیز کردیں- امریکی صدر بش کو اچانک مسئلہ کشمیر کے حل کا خیال آیا اور انہوں نے آناً فاناً امریکہ میں مسئلہ فلسطین کے تعلق سے ایک ’’امن کانفرنس‘‘ کا اعلان کردیا-
اس امن کانفرنس میں شرکت کیلئے تمام عرب ممالک کو مدعو کیا گیا- اس امن کانفرنس کے بنیادی مقاصد یہی تھے کہ ایک طرف فلسطین کی منتخب نمائندہ جماعت حماس کو کنارے کر کے اپنے حاشیہ بردار محمود عباس کو فلسطینی راہنماء کے طور پر تسلیم کرایا جائے- دوسری جانب امن کانفرنس میں دوسرے عرب ممالک کو شامل کر کے فلسطین کے حوالے سے اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عرب ممالک کی رضامندی حاصل کرلی جائے جس سے فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آواز دب جائے- اس امن کانفرنس میں محمود عباس اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ فلسطین پر مذاکرات شروع کرنے کا معاہدہ ہوا- ظاہر ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نتائج کی امید کی جاسکتی ہے اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق کہاں تک حاصل ہوسکتے ہیں- جب فلسطین کی نمائندگی کرنے والے محمود عباس خود امریکہ اور اسرائیل کے حاشیہ بردار ہوں- یہ عین فطری تھا کہ حماس کو ایسے کسی قسم کے مذاکرات جس میں فلسطینیوں کے جائز حقوق کی بات نہ اٹھائی جانے پر سخت اعتراض ہے- غزہ کی ناکہ بندی اور وہاں توڑے جانے والے اسرائیلی مظالم کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اس علاقہ پر حماس کا کنٹرول ہے-
عالمی میڈیا بش سے منسوب اس بیان کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا کہ ان کی خواہش ہے کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے، حالانکہ بش کا کہنا کچھ یوں تھا کہ اسرائیل کو مزید فلسطینی زمینوں پر یہودی بستیاں نہیں بسانی چاہئیں بلکہ یہ بھی واضح کردیا کہ 19676ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر اسرائیل کی واپسی نہیں ہوگی- بش نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ برقرار رکھنے کا اشارہ دے کر یہ واضح کردیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں، ہاں وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کے حق میں ضرور ہیں جو اسرائیل کے دست نگر ہو اور جو لوگ اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج بلند کریں ان کو امن دشمن قرار دے کر نیست و نابود کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے- غزہ میں اس وقت اسرائیل کی جانب سے جو کارروائی ہو رہی ہے وہ صدر بش کے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے منصوبے کا ہی حصہ ہے-
دراصل فلسطین کے حوالے سے صدر بش کی تازہ کوشش ایک طرح سے ایران کے معاملے میں عرب ممالک کو بھی ٹٹولنا ہے- صدر بش نے اپنے دورہ مشرق وسطی کے دوران ابو ظہبی میں پریس کانفرنس کے دوران یہ واضح بھی کردیا کہ ایران دنیا کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کو اس خطرے کا مقابلہ کرنا چاہیے- انہوں نے یہ بھی انکشاف کردیا کہ اسلامی جمہویہ ایران دہشت گردی کی سب سے بڑی معاون ریاست بن چکی ہے جو دنیا بھر میں انتہاء پسندوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اپنے پڑوسیوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے- جس طرح صدر بش نے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لے کر افغانستان اور عراق کو نشانہ بنایا تھا آج اسی طرح ایران کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے-
امریکہ اور اسرائیل گزشتہ کئی برسوں سے ایران کے ایٹم بم کا اسی طرح پروپیگنڈا کررہے ہیں جس طرح صدام حسین کے خطرناک اسلحہ جمع کرنے اور اسامہ بن لادن کے نائن الیون میں ملوث ہونے کا پروپیگنڈا کیا گیا- اب جبکہ خود امریکہ کی تمام ترخفیہ ایجنسیوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ایران 2003ء میں ہی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام بند کرچکا ہے لیکن امریکی صدر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں- دراصل ایران اس خطہ میں امریکی مفادات اور اسرائیل کے ناپاک توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسی لیے اسے معتوب ٹھہرایا جارہا ہے- ایران کو نشانہ بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جس شدید کے ساتھ فلسطین کا معاملہ اٹھاتا رہا ہے اتنا شاید کوئی دوسرا عرب ملک فلسطینیوں کی حمایت میں کھل کر سامنے نہیں آیا-
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کی طاقت کو کچلنے کی جو کارروائیاں ہو رہی ہیں اس کے پس منظر میں اسرائیل کا وہ خوف ہے جو کچھ عرصہ قبل لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کی صورت میں سامنے آیا- امریکہ اور اسرائیل کو یہ خوف ستارہا ہے کہ اگر ایران، لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کا اس خطہ میں دائرہ اثر وسیع ہوا تو وہ اپنی من مانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے-
آخر میں اسرائیل کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے کی بجائے سلامتی کونسل کا یہ اجلاس ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا اور اس انسانی المیہ پر متفقہ بیان تک منظور نہیں کیا جاسکا- ادہر جدہ میں تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کی جانب سے غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر 3 فروری کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا- ایران کے مطالبے پر بلائے گئے اس ہنگامی اجلاس میں غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال کیلئے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرانے کی رسمی خانہ پری کردی گئی اور اقوام متحدہ سے یہ اپیل کی گئی کہ فلسطینیوں کی فاقہ کشی اور زبوں حالی ختم کرنے کیلئے وہ فوری طور پر حرکت میں آئے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ سے لے کر وہاں توڑے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ کی حیثیت محض تماشائی کی سی رہی ہے- آج تازہ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف غزہ میں فلسطینی دانے دانے کو محتاج ہیں اور فلسطینی بچے پیاس سے دم توڑ رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیلی فوجی طیارے بمباری کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارہے ہیں- غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کا یہ قصور ہے کہ انہوں نے گزشتہ الیکشن کے دوران حماس کو ووٹ دے کر مسند اقتدار تک پہنچایا تھا- یہ بات صرف اسرائیل اور امریکہ کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو پسند نہیں آئی- اس لیے فلسطین میں حماس کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد امداد دینے والے ممالک نے احتجاجاً فلسطین کی امداد بند کردی تھی، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے-
گزشتہ ستمبر 2007ء عائد اقتصادی پابندیوں کے باعث غزہ کی دو تہائی آبادی اس وقت غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے- عالمی ادارہ خوراک کے زیر اہتمام جنیوا میں چند ماہ قبل ہونے والی تجارت اور ترقیات سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو فلسطین کی نصف آبادی بیروزگار ہو جائے گی، لیکن اس اپیل کے باوجود عالمی برادری اور یہاں تک کہ عالم اسلام کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی- نتیجے کے طور پر آج غزہ میں مفلسی اور بھوک کا راج ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے باشندوں میں عزم و ہمت اور استقلال کی کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی-
کچھ عرصہ قبل بعض یہودی دانشوروں نے کہا تھا کہ حماس اور فتح باہمی ٹکراؤ میں جس طرح مبتلا ہوگئے ہیں اور جس کے نتیجے میں فلسطین کا علاقہ غزہ اور مغربی کنارہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے، یہ صورتحال وسیع تر اسرائیلی مملکت کے قیام کے لیے آئیڈیل ہے- لہذا اسرائیلی حکمرانوں کو چاہیے کہ اس موقع سے جلد از جلد فائدہ اٹھا کر وہ اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کرلیں- یہودی دانشوروں کے اس مشورہ کی تکمیل کرلیں- یہودی دانشوروں کے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین کے حوالے سے اپنی کوششیں تیز کردیں- امریکی صدر بش کو اچانک مسئلہ کشمیر کے حل کا خیال آیا اور انہوں نے آناً فاناً امریکہ میں مسئلہ فلسطین کے تعلق سے ایک ’’امن کانفرنس‘‘ کا اعلان کردیا-
اس امن کانفرنس میں شرکت کیلئے تمام عرب ممالک کو مدعو کیا گیا- اس امن کانفرنس کے بنیادی مقاصد یہی تھے کہ ایک طرف فلسطین کی منتخب نمائندہ جماعت حماس کو کنارے کر کے اپنے حاشیہ بردار محمود عباس کو فلسطینی راہنماء کے طور پر تسلیم کرایا جائے- دوسری جانب امن کانفرنس میں دوسرے عرب ممالک کو شامل کر کے فلسطین کے حوالے سے اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عرب ممالک کی رضامندی حاصل کرلی جائے جس سے فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آواز دب جائے- اس امن کانفرنس میں محمود عباس اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ فلسطین پر مذاکرات شروع کرنے کا معاہدہ ہوا- ظاہر ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نتائج کی امید کی جاسکتی ہے اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق کہاں تک حاصل ہوسکتے ہیں- جب فلسطین کی نمائندگی کرنے والے محمود عباس خود امریکہ اور اسرائیل کے حاشیہ بردار ہوں- یہ عین فطری تھا کہ حماس کو ایسے کسی قسم کے مذاکرات جس میں فلسطینیوں کے جائز حقوق کی بات نہ اٹھائی جانے پر سخت اعتراض ہے- غزہ کی ناکہ بندی اور وہاں توڑے جانے والے اسرائیلی مظالم کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اس علاقہ پر حماس کا کنٹرول ہے-
عالمی میڈیا بش سے منسوب اس بیان کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا کہ ان کی خواہش ہے کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے، حالانکہ بش کا کہنا کچھ یوں تھا کہ اسرائیل کو مزید فلسطینی زمینوں پر یہودی بستیاں نہیں بسانی چاہئیں بلکہ یہ بھی واضح کردیا کہ 19676ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر اسرائیل کی واپسی نہیں ہوگی- بش نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ برقرار رکھنے کا اشارہ دے کر یہ واضح کردیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں، ہاں وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کے حق میں ضرور ہیں جو اسرائیل کے دست نگر ہو اور جو لوگ اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج بلند کریں ان کو امن دشمن قرار دے کر نیست و نابود کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے- غزہ میں اس وقت اسرائیل کی جانب سے جو کارروائی ہو رہی ہے وہ صدر بش کے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے منصوبے کا ہی حصہ ہے-
دراصل فلسطین کے حوالے سے صدر بش کی تازہ کوشش ایک طرح سے ایران کے معاملے میں عرب ممالک کو بھی ٹٹولنا ہے- صدر بش نے اپنے دورہ مشرق وسطی کے دوران ابو ظہبی میں پریس کانفرنس کے دوران یہ واضح بھی کردیا کہ ایران دنیا کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کو اس خطرے کا مقابلہ کرنا چاہیے- انہوں نے یہ بھی انکشاف کردیا کہ اسلامی جمہویہ ایران دہشت گردی کی سب سے بڑی معاون ریاست بن چکی ہے جو دنیا بھر میں انتہاء پسندوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اپنے پڑوسیوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے- جس طرح صدر بش نے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لے کر افغانستان اور عراق کو نشانہ بنایا تھا آج اسی طرح ایران کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے-
امریکہ اور اسرائیل گزشتہ کئی برسوں سے ایران کے ایٹم بم کا اسی طرح پروپیگنڈا کررہے ہیں جس طرح صدام حسین کے خطرناک اسلحہ جمع کرنے اور اسامہ بن لادن کے نائن الیون میں ملوث ہونے کا پروپیگنڈا کیا گیا- اب جبکہ خود امریکہ کی تمام ترخفیہ ایجنسیوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ایران 2003ء میں ہی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام بند کرچکا ہے لیکن امریکی صدر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں- دراصل ایران اس خطہ میں امریکی مفادات اور اسرائیل کے ناپاک توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسی لیے اسے معتوب ٹھہرایا جارہا ہے- ایران کو نشانہ بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جس شدید کے ساتھ فلسطین کا معاملہ اٹھاتا رہا ہے اتنا شاید کوئی دوسرا عرب ملک فلسطینیوں کی حمایت میں کھل کر سامنے نہیں آیا-
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کی طاقت کو کچلنے کی جو کارروائیاں ہو رہی ہیں اس کے پس منظر میں اسرائیل کا وہ خوف ہے جو کچھ عرصہ قبل لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کی صورت میں سامنے آیا- امریکہ اور اسرائیل کو یہ خوف ستارہا ہے کہ اگر ایران، لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کا اس خطہ میں دائرہ اثر وسیع ہوا تو وہ اپنی من مانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے-