ہٹلر کے آمر اڈولف ہٹلر نے 1924ء کی خود نوشت ’’میری جدوجہد‘‘ میں تحریر کیا تھا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ اپنے کام میں مجھے رب تعالی کی حمایت حاصل رہتی ہے- یہودیوں سے اپنے آپ کو بچایا کر میں اللہ کا کام کررہا ہوں- اسی طرح کریات عربہ کے ربی لوف بی اور نے کہا کہ ’’ایک ہزار غیر یہودیوں کی جانیں ایک یہودی کی انگلی کے برابر بھی نہیں ہیں-‘‘ اسرائیل کے نائب وزیر جنگ مطن ولنائی کا کہنا ہے کہ ہم فلسطینیوں پر ’’ھولوکاسٹ‘‘ سے بڑی مصیبت نازل کریں گے-
مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے انتہائی آرتھوڈوکس یہودیوں کی شاس پارٹی کے روحانی راہنماء نخوادیہ یوسف نے دنیا بھر کے یہودیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کے لیے دعا کریں- یہ دعا صرف (یوم سبت) ہفتہ کو نہ کریں بلکہ سوموار اور جمعرات کو بھی کریں-
اسرائیلی روزنامہ ’’ہارٹز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ربی یوسف نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ فلسطینیوں کو ہلاک کرتے رہنے اور زخمی کرنے کے لیے انہیں رب تعالی کی اعانت حاصل رہے- بیت المقدس میں ہفتہ کی شب، ہفت روزہ خطاب میں یوسف نے یہ بھی کہا کہ یہودیوں کو مقدس کتاب کے مطالعے کے لیے وقت نکالنا چاہیے-
یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ یہودی صرف اس وقت سکون سے بیٹھنا اور توریت کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں کہ جب وہ فلسطینیوں کو جاں بحق کردیں اور ان کو زخم لگادیں- یہودی صدیوں سے توریت کا مطالعہ کرتے چلے آرہے ہیں- کیا یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد توریت کے مطالعے سے یہودیوں کو عزت و استحکام مل جائے گا- ربی یوسف کئی بار فلسطینیوں کو ’’چوہا‘‘ قرار دے چکے ہیں- انہیں توریت کے ماہر ترین عالموں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے- لیکن یوسف جس طرح مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے قتل عام کی کھلم کھلا تائید کرتے ہیں- اس کے بعد ان کا چہرہ ایک ایسے مکروہ شخص کا چہرہ بن کر سامنے آتا ہے کہ جو انسانیت کو قتل کرکے خوش ہوتا ہے اور جو توریت کی آیات کا حوالہ صرف اس لیے دیتا ہے تاکہ انسانیت کے قتل عام کو خدائی حکم تسلیم کرایا جاسکے- ربی یوسف شاید اس سے آگاہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے کس طرح نازی طرز کے مظالم ڈھائے ہیں- انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر کوئی فوج عام شہریوں نیز معصوم بچوں کو ان کی ماں کی گود میں موت کے گھاٹ اتار دیں وہ حق پرست فوج نہیں ہے بلکہ وہ غنڈوں اور ڈاکوؤں کا مجموعہ ہے جیسا کہ گستابو اور ایس ایس اور Wehrmacht تھے-
مجھے اس کا اندازہ ہے کہ چند صہیونی ربی ایسے ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ ’’دشمن کے معصوم شہری‘‘ کا تصور بلاجواز ہے ان کا خیال ہے کہ ’’محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے‘‘ لیکن یہ تصور غیر اخلاقی ہے اور اس تصور کا تعلق آدم خور دنیا کے قدیم دور سے تعلق تو رکھ سکتا ہے- موجودہ دور سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے- آڈولف ہٹلر سے جوزف سٹالن ایریل شیرون، ایہود اولمرٹ اور ایہود باراک تک جو دنیا کے بڑے بڑے آمر قاتل اور ڈکٹیٹر رہے ہیں وہ یہی دلیل پیش کرتے رہے ہیں کہ جنگ میں ہر چیز جائز ہے- جتنے بھی خون خرابے اور ’’ھولوکاسٹ‘‘ ماضی میں ہوئے ہیں- آدم علیہ السلام کے بعد سے لے کر آج تک ان سب کی یہی دلیل دی جاسکتی ہے کہ ’’طاقت ہی اصل اخلاق ہے-‘‘
میں سوچتا ہوں کہ ربی یوسف ڈلی اور ڈیوڈ بالستری اور اس سے قبل کے دیگر لوگوں کا اس وقت کیا ردعمل ہوگاکہ جب کوئی نازی افسر یہ کہے کہ یہودیوں کو قتل کرنے کا منصوبہ (ھولوکاسٹ) مکمل طور پر قانونی عمل تھا اور اس کا آئینی و دستوری جواز موجود تھا- کیونکہ ہم حالت جنگ میں تھے اور ہمیں اپنے دشمن کا پتہ تھا اور حالت جنگ میں ’’معصوم شہری‘‘ نامی کوئی منصوبہ نہیں ہوتا-
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ربی میں جو غزہ کے معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے اور معذور بنانے والی فوج کی کامیابی کے لیے دعا کرتا ہے اور نازی جرمنی کے اس پادری میں کیا فرق ہے کہ جس نے وسطی یورپ اور مشرقی یورپ میں تباہ کن حملے کروائے تھے اور خوشی منائی تھی-
کیا یہودی ربی کا یہ خیال درست ہے کہ یہودیوں کی جانب سے کیا جانے والا قتل عام ’’کوشر‘‘ (حلال) ہے- کیا وہ سمجھتا ہے کہ غیر یہودی بچے اور عورتیں اور مرد غیر انسان یا کم تر انسان ہیں- وہ کس قسم کی توریت کی تلاوت کرتا ہے؟ وہ کس قسم کے خدا کی عبادت کررہا ہے کیا وہ سمجھتا ہے کہ توریت میں انسانوں کو ہلاک نہ کرنے کا جو حکم ہے اس کا تعلق صرف صرف ’’یہودیوں‘‘ سے ہے- ربی یوسف کی اس کے سوا کوئی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ایک تاریک مغز بوڑھا آدمی ہے- حقیقتاً میں وہ مجرمانہ ذہنیت کا مالک ہے- وہ مجرم ہے کیونکہ توریت کے نام پر اور یہودیت کے نام پر وہ برائی کو اچھائی بنا کر پیش کررہا ہے- اس طرح خدا کے خلاف اور انسانیت کے خلاف بدترین مظالم اس طرح سامنے آتے ہیں گویا کہ وہ بہت بڑی نیکی ہوں-
جہاں تک یہودی مذہبیات کا تعلق ہے ممکن ہے کہ وہ ایک عالم و فاضل شخص ہو لیکن جہاں تک توریت کی اخلاقی تعلیمات کا تعلق ہے وہ سراسر لاعلم شخص محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ اگر یہودیت کی روح سے پوری طرح آگاہ ہوتا، وہ یہ سمجھ چکا ہوتا کہ یہودی و غیر یہودی معصوم لوگوں کا قتل عام آسمان کے نیچے سب سے بڑا جرم ہے-
کیا ربی یوسف نے توریت کا یہ حکم نہیں پڑھا ’’تم کسی کو قتل نہ کرو گے‘‘؟ کیا دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا یہی طریقہ ہے کہ بچوں کو ہلاک کرنے والوں کو انعام دیا جائے- ان کی حوصلہ افزائی کی جائے- یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ مذہب کا نام استعمال کررہے ہیں وہ حقیقت میں مذہب کو بدنام کررہے ہیں- تعجب ہے کہ دنیا یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے اور اس پر خاموش ہے-
