جمعه 15/نوامبر/2024

حماس کے خلاف جنگ ، اسرائیل نے کیا پایا؟

اتوار 9-مارچ-2008

حماس اور اسرائیل کے درمیان محاذ  رائی… …کس کی فتح اور کس کی شکست کا باعث ہوگی؟
بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا-اسرائیل گزشتہ ڈیڑھ برس سے غزہ کی پٹی میں قائم (اسلامی تحریک مزاحمت )حماس حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے پر تو ل رہا تھا – جارحیت کا  آغاز کچھ اس طرح کیاگیا کہ تین دن کی بمباری میں 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے ریکارڈ توڑ دیے گئے-  بمباری میں اب تک پچیس بچوں سمیت ایک سو فلسطینی شہید اور ساڑھے تین سو زخمی ہو چکے ہیں- جبکہ اسرائیل نے جنگ روکنے کے لیے عالمی دباؤ کو بھی یکسر مسترد کر دیا ہے- دوسری جانب امریکہ نے حسب سابق اسرائیلی حملے کی حمایت کرتے ہوئے اسے دفاعی نقطہ نظر سے اسرائیل کی ضرورت قرار دیا ہے –
اسرائیل کے سیاسی اور فوجی تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ اسماعیل ھنیہ کی زیر قیادت قائم فلسطینی حکومت کو کمزور اور معزول کرنے کا منصوبہ حتمی صورت اختیار کرچکاہے – اسرائیلی ٹی وی کے معروف فوجی تجزیہ نگار رونی ڈینئل نے کہاہے کہ اسرائیل کے چوٹی کے سیاستدان اور فوجی افسروں نے اس منصوبے کی تفصیلات کو حتمی شکل دیتے ہوئے وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ اور دیگر حماس قائدین کے قتل کے لیے طاقت کا بے محابا استعمال کیا جائے –
حماس کی نگراں حکومت نے اسرائیل کی تازہ جارحیت اور معصوم شہریوں کے قتل عام کو فلسطینی عوام کے خلاف یہودیوں کا ’’ھولوکاسٹ‘‘ قرار دیا-حماس کے ترجمان مشیر مصری نے اسرائیل کے علاوہ امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک پر بھی نکتہ چینی کی اور انہیں اسرائیل کا ساتھی قراردیا-
 اسرائیلی حملے کا بنیادی ہدف کیا ہے- یہ جنگ معصوم جانوں کے ضیاع کے بعد کس کے حق میں جائے گی-ظاہر ہے اسرائیل آزادی پسند فلسطینیوں کو اپنی بقاء کے حوالے سے سم قاتل قرار دیتا ہے،یہی وجہ ہے فلسطین میں حماس جیسی آزادی کی علم بردار جماعت اسرائیل کو کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے- اسرائیل ہر قیمت پر اس کا خاتمہ چاہتا ہے -یہ امر اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ حماس کو قائم ہوئے اب بیس بر س سے زائدکا عرصہ گزر چکا ہے – اسرائیل ہردورمیں اس کی سرکردہ قیادت کو قتل کرتا اور ہمیشہ یہ دعوی کرتارہا کہ وہ بزور طاقت حماس کو ختم کر دے گا- بانی حماس شیخ احمد یاسین اور ان کے جانشین ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی کو صرف دوماہ کے قلیل وقفے سے شہید کردیا گیا ، جس کے بعد قیاس کیا جاتارہا کہ حماس کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور آئندہ اسرائیل کو للکار نے والی اس قوت میں دم خم پیدا نہیں ہو گا- لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر نہ صرف غلط ثابت ہوا بلکہ اسرائیل کو لینے کے دینے پڑ گئے- شیخ احمد یاسین کی موجودگی میں حماس کی عوامی پذیرائی اتنی نہیں تھی جتنی اب دیکھی جارہی ہے- اس لیے اسرائیل کا یہ کہنا کہ وہ حماس کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا، محض ایک دھمکی محسوس ہوتی ہے-خود اسرائیلی سروے یہ بتاتے ہیں غزہ کی ڈیڑھ ملین آبادی میں ایک ملین سے زائد لوگ ایسے ہیں جو حماس ہی کو اپنا نجات دہند ہ سمجھتے ہیں-یہ کوئی دور کی بات نہیں بلکہ رواں سال کے آغاز ہی میں اسرائیلی سر کاری ریڈیو رپورٹ کا خلاصہ ہے،جس میں حما س اور فلسطینی عوام کو ایک ساتھ کھڑے دکھایاگیا ہے-
حماس کی موجود ہ حیثیت فلسطینی عوام میں نہایت اہم موڑ میں داخل ہو چکی ہے- فلسطین کا ہر دوسرا شخص حماس سے نہ صرف ہمدردی رکھتا ہے بلکہ اس کے مقاصد اور طریقہ کار سے بھی متفق نظر آتا ہے-یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ بر س کے اسرائیلی معاشی مقاطعہ کے باوجود فلسطینی عوام کی حماس کے حوالے سے ہمدردی میں کمی نہیں کی جا سکی-سابقہ اور حالیہ سروے رپورٹس بھی اس پر شاہد ہیں کہ فلسطین میں عوامی سطح پر اگر کسی جماعت کو پذیرائی حاصل ہے تو اس میں پہلا نمبر حماس کا ہے-
اسرائیل نے غزہ پر حملے کے حوالے سے اپنے اہداف و مقاصد کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے – وزیر دفاع ایہود باراک نے سرکاری ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر ان کا حملہ تین مقاصد کے لیے کیاجارہاہے- 1 -حماس حکومت کا خاتمہ، 2- مجاہدین کے تیار کردہ میزائلوں اور اسلحہ کے ذخیروں کا صفایا- 3-غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی اور فتح پارٹی کے حوالے کرنا -انہوں نے کہا کہ مقاصد کے حصول تک اسرائیل غزہ پر حملے جاری رکھے گا- اسرائیل حسب ضرورت ہر طرح کے ذرائع استعمال کرے گا، حتی کہ بھاری ہتھیاروں کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا – حماس کو اسرائیل پر میزائل حملوں کی سزا دینا ناگزیر ہے- اس سلسلے میں معصوم اور غیر معصوم کی پرواہ کیے بغیر بمباری جاری رکھی جائے گی – اسرائیل کا ہدف غزہ سے حماس نیٹ ورک کا خاتمہ ہے- ایک ہفتے سے جاری کارروائیوں میں حماس حکومت کو کافی حدتک کمزور کردیا گیا ہے، جلد اس کا تختہ الٹ دیا جائے گا- باراک نے مزید کہا کہ اگر حماس کو مزید موقع دیا گیا تو وہ ناقابل تسخیر ہو جائے گی اور بیرون ملک اسے بھاری ہتھیار بھی مل سکتے ہیں-
 حال ہی میں اسرائیل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال بھی کر چکا ہے-فروری کے آخر میں قابض فوج نے جہاد اسلامی کے کمانڈ محمد الفائد پرحملے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے، اس کے علاوہ حماس کی تنصیبات پر بھی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں- اسرائیلی صدرکی جانب سے فوج کے نام یہ پیغام کہ فلسطینی عوام کو کچل کررکھ دیا جائے اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے- سربراہ مملکت کی جانب سے اس قدر شدت پسندانہ انداز بیاں یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف جنگ میں بھاری اسلحے کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا – اگر ایسا کیاگیا تو آبادی کے اس گڑھ میں بے پناہ جانی و مالی نقصا ن کا اندیشہ ہے-
اسرائیلی حکام کاکہنا ہے کہ حماس کا قلع قمع کرنا مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے ضروری ہے- سوال یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت جو عوام میں اپنی بھاری ہمدردی رکھتی ہو اسے ختم کیا جا سکتا ہے؟- خود اسرائیلی سیاست دان بھی اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دینے سے قاصر نظر آتے ہیں- موجودہ حکمران جماعت ’’کدیما‘‘ سے تعلق رکھنے والے ایک اہم راہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طاقت کا استعمال کوئی مثبت نتائج کا حامل نہیں ہوتا، حکمراں حماس اقتدار سے علیحدگی کی صورت میں یہودیوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے- اس لیے خطے میں قیام امن کا راستہ اگرچہ حماس جیسی قوتوں کے خاتمے سے ہو کر گزرتا ہے، تاہم ان کا خاتمہ طاقت کے بجائے حکمت و دانش سے کیا جانا چاہیے –
جہاں تک اسرائیل کا یہ دعوی کہ فوج کشی کا مقصد فلسطینی مزاحمت کاروں کے تیار کردہ دیسی ساخت کے میزائلوں کا خاتمہ ہے، تو اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق فوجی حملوں میں ایسا ایک راکٹ کی بھی تباہ نہیں کیا جا سکا-اسرائیلی اخبار ’’معاریف‘‘  کے مطابق فوج گذشتہ چھ ماہ کے دوران ایک سو سے زائد مرتبہ صرف اسلحہ کے مشتبہ ٹھکانوں پر حملے کرچکی ہے، لیکن جہاں کہیں بھی حملہ کیاگیا وہاں پر کوئی میزائل ذخیرہ سرے سے موجود نہیں تھا – رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار وں نے لبنانی حزب اللہ جیسی دفاعی حکمت عملی اپنا رکھی ہے- 2006ء میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی فوج نے کئی تباہ کن حملے کیے تاکہ اس کا نیٹ ورک تباہ کیا جا سکے ، لیکن بد قسمتی تمام حملوں کا نشانہ خطاجاتا یا سولین ان کا نشانہ بنتے تھے-ویسے بھی اسرائیل کی چیخ و پکارسے اندازہ ہوتا مزاحمت کاروں کے میزائل اور ان کی روک تھام اس کے لیے واقعی ایک لا ینحل مسئلہ بن چکے ہیں-
 دوسری جانب مزاحمت کارکامیابی کے ساتھ میزائل تیار کرتے ہوئے اسرائیلی تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں-اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے جواب میں تین دنوں میں القسام مجاہدین نے ایک سو سے زیادہ راکٹ یہودی کالونیوں پر داغے، یہ میزائل ’’سدیروٹ،تاحیم،زکیم کفار عزہ، نسٹیف ھسٹرا، کیسوفیم، صوفا، مرڈفائی، بئیری، ناحل عوز کالونیوں پر داغے گئے جن سے گوکہ جانی نقصان کم ہوا تاہم پوری آبادی میں بوکھلاہٹ کی کیفیت ضرور پیدا کر دی -مزاحمت کاروں کی جانب سے نہ صرف میزائلوں کے استعمال کا سلسلہ کامیابی سے جاری ہے چار ہزار کی تعداد میں راکٹوں کی موجودگی کا دعوی بھی کیاگیا ہے-دیگر اسرائیلی تجزیہ نگار ایہودیاری کا کہناہے کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار اسرائیلی آبادکار فلسطینیوں کے گھریلو ساختہ میزائلوں اور راکٹوں کی زد میں ہیں –
 جہاں تک غزہ میں فتح پارٹی کے دوبارہ کنٹرول بحال کرنے کا سوال ہے، یقینا یہ بھی کوئی آسان معاملہ نہیں، حماس اگرچہ اسرائیل کے لیے سوہان روح کا درجہ رکھتی ہے اور فتح پارٹی ہی اس وقت اس کے لیے قابل قبول ہو سکتی ہے، لیکن کیا فتح پارٹی اہل غزہ کے لیے اس طرح قابل قبول ہو سکتی ہے جس طرح حماس قابل قبول ہے- اس بارے میں خود الفتح بھی خلفشار کا شکار نظر آتی ہے- حال ہی میں فتح کے ایک سنیئر راہنما فاروق قدومی نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر فتح کا کنٹرول بحال ہونے کی صورت میں پارٹی دیگر عوامی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے گی- ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا فلسطین میں حماس سے مل کر کوئی مخلوط قومی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے تو انہوں نے اس کا امکان رد نہیں کیا اور کہا کہ فلسطینی عوام کے مسائل کا حل ان کے باہمی اتحاد ہی میں مضمر ہے- قدومی نے اعتراف کیا کہ تنہا فتح پارٹی غزہ اور فلسطینی عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتی اسے لازمی طور پر دیگر جماعتوں کا تعاون درکا ر ہو گا –
ادھر اسرائیل میں حماس کے حوالے سے ایک نیا تصور بھی ابھر رہا ہے کہ غزہ میں حماس حکومت کی خاتمے کی صورت میں حماس اسرائیل کی خلاف تحریک انتفاضہ کاآغازبھی کر سکتی ہے،جس کے لیے حماس راہنماکئی بار بیانات بھی دیے چکے ہیں-اسرائیل کے ایک دفاعی امور کے اہم تجزیہ کار بین جمن ڈیوڈ نے عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ حماس اپنی حکمت عملی تبدیل کرے، اقتدار تو فتح کے سپر د کر دے لیکن اسرائیل پر خودکش حملوں کاہتھیار اٹھا لے- ان کا کہنا تھا کہ اب کی بار حماس پہلے کی طرح کمزور نہیں، اور اسے شام ، حزب اللہ اور ایران کی جانب سے عسکری امداد بھی مل رہی ہے -اس طرح اسرائیل کو حماس کی جانب سے بڑے پیمانے پر خود کش حملوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا –
حماس اور دیگر فلسطینی جہادی تنظیمیں بھی اپنے طورپر اسرائیل کے خلاف پوری طرح صف آرا دکھائی دے رہی ہیں- حماس، جہاد اسلامی، القدس بریگیڈ اور شہداء اقصی بریگیڈ اور ابو علی مصطفی بریگیڈ سمیت آٹھ سے زائد مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیلی حملوں کا مشترکہ طور پر جواب دینے کافیصلہ کیا ہے- اب تک کی کارروائیوں میں مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں کو نقصان ضرور پہنچا ہے تاہم ان کے حوصلے پست دکھائی نہیں دیتے،جبکہ اسرائیل پر جنگ بندی کے حوالے سے بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے-حما س کے راہنما خالد مشعل نے کہا کہ حماس کا خاتمہ کرنے والے یہ بھول جائیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکیں گے- حماس کی اٹھا ن ہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت پر ہوئی ہے، لہذا اسرائیل سمیت عالمی طاقتیں حماس کو طاقت کے ذریعے مرعوب کرنے کا خیال دل سے نکال دیں-فلسطینی تنظیم آزادی فلسطین کے راہنما ڈاکٹر مصطفی برغوثی نے دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیلی جارحیت در اصل گزشتہ برس امریکہ میں ہونے والی مشرق وسطی امن کانفرنس کے فیصلوں کا نتیجہ ہے- امریکہ نے  اس کانفرنس میں اسرائیل کو حماس خلاف کارروائی کا سر ٹیفکیٹ دے دیاتھا – امریکہ عراق میں ہاری ہوئی جنگ کا بدلہ اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کی صورت میں لینا چاہتا ہے-انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے فلسطینی عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا تو یہ جنگ صرف فلسطین کے اندر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اسرائیل کو کہیں بھی اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا -گزشتہ نومبر میں کانفرنس کے بعد یہ خیال زور پکڑ گیاتھاکہ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد قیام امن نہیں بلکہ حماس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی منصوبہ بندی ہے-
صدر محمودعباس نے رسمی طور پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے اور خبردارکیا ہے کہ اگر فوج کشی کا سلسلہ جاری رہا تو وہ مذاکرات روک دیں گے- دوسری جانب حماس نے اسرائیلی حملے میں صدر محمودعباس اور سلام فیاض حکومت کو صہیونی جارحیت اور فلسطینی عوام کے مسائل میں برابر کا ذمہ دار ٹھہریا ہے – حماس کے اہم راہنما ڈاکٹر سامی ابو زہری کئی بار کہہ چکے ہیں کہ یہ سب کچھ صدرمحمود عباس کے نام نہاد مذاکرات کا نتیجہ ہے کہ اہل غزہ کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں، وہ بارہا صدر عباس سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کا آلہ کار نہ بنیں- آخر یہ کیسے مذاکرات ہیں کہ صدر محمو د عباس نہ تو غزہ کی معاشی ناکہ بندی اٹھوا سکے اور اسرائیلی جارحیت میں بھی خاموشی کا مظاہرہ کیاجا رہا ہے -صدر عباس اور ان کی گروپ کا یہ رویہ یقینا فلسطینی عوام کے لیے نہایت مایوس کن ہے- واضح رہے کہ صدر محمود عبا س ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں وہ اسرائیل سے ناکہ بندی اٹھانے کی سفارش صرف اسی صورت میں کریں گے جب حماس اور دیگر آزادی پسند جماعتیں اسرائیل پر راکٹ حملوں کا استعمال بند کر دیں گے –
حالات کی خرابی کا اندازہ امریکی بحری بیڑے کی لبنانی ساحل میں آمد سے لگایا جا سکتا ہے- اگرچہ فی الحال اس بیڑے کی آمد محض احتیاطی تدابیرہی قرار دیا گیاہے لیکن خیال ہے کہ حماس کے خلاف کارروائی بڑھنے کی صورت میں اس کی حامی لبنانی شیعہ تنظیم حزب اللہ اسرائیل مفادات پر حملے کر سکتی ہے-ورلڈ کونسل آف چرچز کے سیکرٹر جنرل رفعات کسس کا نقطہ نظر بھی قابل غور ہے ، وہ کہتے ہیں کہ امریکہ بحری بیڑے کی موجودگی خطے میں ایک نئی جنگ کا تاثردے رہی ہے جبکہ امریکی صدر جارج بش اپنے جنوری کے دورہ مشرق وسطی میں حزب اللہ اورحماس جیسی شدت پسند جماعتوں کے خلاف اسرائیل سے ملک کر فیصلہ کن کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں- حال ہی میں حزب اللہ راہنما عماد مغنیہ کا قتل بھی اس سلسلے کی کڑی ہے- مغنیہ کی طرح خالد مشعل اور اسماعیل ھنیہ کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے-رفات نے بھی اسرائیلی جارحیت کی پرزور مذمت کی-اس موقع پر بشپ آف رائیونڈ بشپ سموئیل رابرٹ عزرایا بھی ان کے ہمراہ تھے- رفعات کسس نے کہا کہ اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں بڑھتی ہوئی مداخلت سے صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے اور 300 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور ایک ہزار سے زائد کو زخمی کیا گیا ہے-
اگرچہ اسرائیل نے وقتی طورپر غزہ کے شمال میں فوج میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ساتھ ہی مزید بمباری کا سلسلہ بھی تیز کردیا ہے- فلسطینی حکام اسے اسرائیلی چال سے تعبیر کرتے ہیں- وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل فوجیں واپس بلانے کی آڑ میں حملے کی تیاری کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے-
 مسئلہ فلسطین عرب ممالک اور عالم اسلام کا اہم مسئلہ تو ہے ہی لیکن عالم امن کے لیے اس کا حل کیاجانا پوری دنیا کی بنیادی ضرورت کا درجہ اختیار کر گیا ہے – ایسے میں بد قسمتی سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ عالمی بردادری اپنا فرض پورا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے- اس کی بنیادی وجہ اسرائیل کے لیے امریکہ اور بعض دیگر طاقتوں کا غیر مشروط تعاون ہے- جب تک یہ قائم رہے گا قتل عام سیاست برگ وبار لاتی رہے گی-رسمی طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس، سعودی عرب اور پاکستان نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے ،لیکن یہ معاملہ مذمتی بیانات سے حل ہونے والا نہیں-

لینک کوتاه:

کپی شد