جمعه 02/می/2025

حماس کے خلاف بھاری لاگت کا امریکی منصوبہ بے نقاب

منگل 11-مارچ-2008

امریکی ماہنامے وینیٹی فئیر میں چھپنے والے ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بش انتظامیہ نے سن دو ہزار چھ کے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی فلسطینی جماعت حماس کی حکومت ہٹانے کی کوشش کی تھی۔میگزین نے الزام لگایا ہے کہ اسی وجہ سے حماس تنظیم، فتح اور فلسطینی صدر محمود عباس کے خلاف ہو گئے تھے۔امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس مضمون کوغلط قرار دیتے ہوئے کو مسترد کردیا ہے۔
میگزین کا دعویٰ ہے کہ تقریبًا ایک اعشاریہ دو سات بلین ڈالر بجٹ کے پانچ سالہ منصوبے کو بروئے کار لایا گیا تاکہ سن دو ہزار چھ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے کو بدلا جا سکے جس کے نتیجے میں انتہا پسند تنظیم حماس کو برسر اقتدار آنا تھا۔
اس منصوبے کا مقصد بظاہر نسبتًا معتدل تنظیم فتح کو اسلحے اورپیسوں کے لحاظ سے تقویت دینا تھا۔کیونکہ امریکی کانگریس نے فتح کو کو تقویت دینے کے لیے ایک بڑے فنڈ کی فراہمی سے انکار کر دیا تھا۔ میگزین نے دعویٰ کیا ہے کہ بش انتظامیہ نے اپنے حمایتی عرب ممالک کو فلسطینی تنظیم فتح کی امداد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ غزہ میں فلسطینی حکام تک ہتھیار پہنچانے کے لیے مصر کی سرزمین کو بھی استعمال کیا گیا۔
مضمون میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ غزہ میں حماس نے فتح کی طرف سے ممکنہ ایکشن کو روکنے کے لیے کارروائی کی تھی۔ لیکن امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی خفیہ منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکی حکومت نے فلسطینی حکومت کی سکیورٹی سروسز میں اصلاحات کے لیے مدد فراہم کی تھی۔ مضمون میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ بش انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے مذاکرات کرنےاور حماس کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھنے کی حکمت عملی اب تک ناکام رہی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی