صہیونی ریاست کے پہلے صدر ڈیوڈبن گورین نے کہاتھاکہ اسرائیل اس دن ٹوٹ جائے گا جب اسرائیل کو اپنی تاریخ کی پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور ظاہر ہے اسرائیلی صہیونی ریاست کی ہیئت ترکیبی کو اس کے خالق سے بہتر کون جانتاہوگا-
فروری 2008ء میں بالآخر اسرائیل نے وین گراڈ کمیشن رپورٹ کو سرکاری طور پر جاری کردیا جو حالیہ حزب اللہ اسرائیل جنگ کی تحقیقات کے لیے قائم کیاگیاتھا- وین گراڈ کمیشن نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ 33 روزہ حزب اللہ اسرائیل جنگ میں اسرائیل سیاسی عسکری‘ سفارتی اور حتی کہ میڈیا کے محاذ پر بھی بدترین ناکامی سے دوچار ہوا جس کے ذمہ دارعناصر میں سے اسرائیلی رمی چیف اور اسرائیلی وزیراعظم کو بھی قرار دیا گیا ہے –
جولائی 2006ء میں ہونے والی اس جنگ کا نقطہ غاز غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے بدترین تشدد کے بدلہ کے طور پر حزب اللہ کے ہاتھوں 2اسرائیلی فوجیوں کا اغوا جبکہ سات کی ہلاکت تھا- غزہ میں جاری ظلم و ستم کم کرنے کے لیے حزب اللہ نے اسرائیلی افواج کو Engageکیا- نتیجتاً خطے میں ایک مہلک جنگ شروع ہوئی اور اسرائیل کو تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگ کی جدت مقبوضہ فلسطین یا حالیہ اسرائیل کے اندر بہت گہرائی تک محسوس ہوئی اور اس کے ناقابل شکست ہونے کا اضافہ خواب بن کر رہ گیا- اس جنگ سے اسرائیل نے کوئی سبق سیکھا ہو یا نہ فلسطینیوں نے ضرور سیکھا ہے اور اب فلسطینی اسلامی جہاد اور حماس نے انہیں sTechticاور جنگی حکمت عملیوں کو استعمال کرنا شروع کیا ہے جو حزب اللہ نے اپنائی تھیں جس کے نتیجہ میں اسرائیل پہلی بار غزہ کے حوالے سے ایک مخمصہ میں مبتلا ہوگیا ہے اور مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے یے اسرائیلی عسکری قوت کابھرپور استعمال کررہاہے –
دو روزہ اسرائیلی حملہ میں میڈیکل ذرائع کے مطابق 125 سے زائد افراد شہید جبکہ سینکڑوں شدید رخمی ہیں- تازہ ترین حملوں میں ایک نوازائیدہ بچی سمیت کم ازکم 25 مزید افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نے پارلیمانی دفاعی امور کی کمیٹی سے خطاب میں کہا ہے کہ ہم ایک بڑی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ہمارا ہدف دونکاتی ہے – 1- حماس کو کمزور کرنا ‘2- راکٹ حملوں کو روکنا اور اس کے لیے ہم بری ‘ فضائی طاقت کابھرپور استعمال کریں گے جبکہ اسرائیل انسانی حقوق کے گروپ B.Salem نے رپورٹ میں کہا ہے کہ اب تک اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر بچے اور عورتیں یا سویلین افراد تھے-
غزہ ایک مرتبہ پھرFlash Point بن چکاہے- 2/1/1 ملین سے زائد آبادی والا یہ فلسطینی خطہ ہر لحاظ سے اسرائیلی رحم و کرم پر ہے- وہ جب چاہتے ہیں تمام علاقے کو بنیادی ضروریات‘ پانی ‘بجلی اور اشیائے خوردونوش کی فراہمی روک سکتے ہیں- واحد متصل ملک مصر ہے جو اسرائیل کے ساحت اپنے معاہدوں کی بناء پر اور امریکی دباؤ کی وجہ سے فلسطینیوں کی کسی بھی مدد کرنے سے انکاری ہے – جبکہ دوسری طرف امریکہ نے VS COAL نامی بحری بیڑے کو دو چھوٹے جنگی جہازوں کی معیت میں لبنان روانہ کردیا ہے- یوں خطہ ایک مرتبہ پھر کسی بڑی جنگ کا شکار ہوسکتاہے –
غزہ کو مزاحمت کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے لیکن اس کے اثرات After effectsبھی بہت گہرے ہوں گے- حماس کی منتخب حکومت کو جب امریکی ایماء پر تحلیل کردیاگیا تو الفتح کے اراکین نے بڑی تعداد میں غزہ کے علاقے میں حماس رہنماؤں کے حوالے سے اسرائیل کو معلومات فراہم کیں جس پر اسرائیل نے راکٹ حملوں اور جہازوں سے حملوں کے ذریعے فلسطینی قیادت میں سے ایک بڑی تعداد کوTarget Killing کا شکار کیا- ردعمل کے طور پر حماس نے الفتح کی پولیس اور انتظامیہ کو بے اثر بنا کر اپنی انتظامیہ اور پولیس تعینات کی یوں یہ خطہ مکمل طور پر حماس کے کنٹرول میں چلا گیا اور یہی بات اسرائیل کے لیے قابل برداشت نہ تھی- دوسری طرف حماس نے اپنے شہداء کا انتقام لینے کے لیے راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع کیا- یہ راکٹ مقامی طور پر تیار کئے جاتے ہیں اور 30 سے 35 میل تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں –
اپنی تمام تر کوششوں اور غیر متوازن جنگی طاقت کے استعمال کے باوجود ایک دن کے لیے بھی اسرائیل ان حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکااوران دو روز میں جب 125فلسطینی غزہ میں شہید ہوئے – اسرائیل پر 24 سے زیادہ راکٹ داغے گئے – ان راکٹوں کے مالی نقصان سے زیادہ یہ نفسیاتی نقصان ہے کہ اسرائیل ان کو رورکنے میں ناکام بھی ہے اور اطراف کے ایک بڑے علاقے کے ملین صہیونی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور یہ اسرائیل میں ان کے کاروبار سمیت امن اور ترقی کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے- آبادی کی ہئیت کو بدلنے کے لیے Demographic Change کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسرائیل یہودیوں کو incentiveمہیا کرتا رہے- آبادی کی ترتیب میں یہی تبدیلی مستقبل کے اسرائیل کا تعین کرے گی- ویسٹ بینک میں 1997ء میں فقط 500یہودی آباد تھے- 2000ء میں ان کی تعداد 200000 تک پہنچ گئی تھی- اسرائیلی دنیا کی چند بڑی شہری آبادیوں میں شمار ہوتاہے جو GNP کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ آمدنی و الی سوسائٹی بھی ہے- اس کا GNPملحقہ مصر سے 12فیصد جبکہ اردن سے 15فیصدزیادہ ہے- یہ سب وہ پرکشش علامتیں ہیں جو دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل میں بسانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں تاکہ اسرائیل آبادی کے اعتبار سے بھی قوت پڑنے اور فلسطینیوں کے غلبے کا تدارک بھی ہوسکے-
گریٹر اسرائیل کے خواب کی تکمیل کے لیے یہودیوں کی آبادکاری ایک ضروری عمل شمار کیا جاتاہے- حالیہ فلسطینی انتفاضہ gUprisinنے اسرائیل کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے- یہودی آبادکاری میں نمایاں کمی آئی ہے جبکہ غیر محفوظ اسرائیل کسی بھی یہودی بزنس مین کے لیے پسندیدہ جگہ قرار نہیں پاسکتی- یوں جس اسرائیل کو امریکی اور یورپی امداد سے High Techسوسائٹی بنادیاگیاتھا جس میں 400 سے زیادہ جدید ترین صنعتیں سرگرم تھیں اور جو ایجادات میں Foruth Generationاگلی نسل کی چیزیں تیار کررہاتھاکہ مرکافہ ٹینک جس کی ایک مثال ہے فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کو Backgair Statusحالت میں تنزل میں لا کھڑا کیا ہے – لبنان جنگ کے بعد پہلی مرتبہ اسرائیل معاشی خسارے سے دوچار ہوا جبکہ غزہ میں انتفاضہ کے عمل نے جہاں اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاوں کو خطرے سے دوچار کردیا ہے وہاں فلسطینی بھی ایک نئے عزم سے روشناس ہوئے ہیں کہ اسرائیل کا بت چکنا چور ہورہاہے اور اس کی معیشت کے غبارے سے بھی ہوا بڑی تیزی سے نکل رہی ہے –
اسرائیلی یونیورسٹیوں میں ہونے والے ایک جدید سروے کے مطابق نوجوان اسرائیلیوں کے لازمی فوجی تربیت کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے اور وہ اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں- اسرائیلی سوسائٹی بالعموم اور اسرائیلی افواج بالخصوص حالیہ ناکامیوں کے نتیجہ میں demoralize ہوئی ہیں اور ان کا مورال پست ہوا ہے – دنیا حیران ہے کہ ہر روز درجنوں جناز ے اٹھانے کے باوجود بھی اسرائیل کی خواہش کے برعکس غزہ کے رہنے والے مزید قربانیوں کے لیے توتیار ہوتے ہیں لیکن حماس کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے- اسرائیل کے غزہ پر حملے اور پھر انخلا کو حماس کی فتح سے تعبیرکیا- اس سارے عمل نے فلسطینی مسئلہ میں ایک نئے عنصر کو تقویت دی ہے اور یہ عنصر ہے کہ خود پر بھروسہ کرتے ہوئے دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے شہادت طلبی کے ساتھ اگر مقاومت کی جائے تو جنگی ہتھیاروں کے لیے بے دریغ اور وحشیانہ استعمال سے تلوار کے مقابلے میں خون واضح طور پر سرخرو نظر آتاہے-
جنگیں ہتھیاروں کے ساتھ لڑی جاتی ہیں- ہتھیاروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریات کی بناء پر غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے فطری طور پر فلسطینیوں کو بالخصوص حماس کو حزب اللہ اور ایران سے قریب کردیا ہے- عرب دوستوں کی بے وفائی اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی خاموشی جیسے عوامل نے بھی فلسطینیوں کو ایران سے زیادہ قریب کیا ہے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں بڑھتاہوا ایرانی نفوذ اسرائیل کے لیے بڑا چیلنج بن گیاہے- خطے میں ایرانی ایک بڑے Payerاور مسئلہ فلسطین کے بڑے داعی کے طور پر سامنے رہے ہیں اور یہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے لیے قطعاً قابل قبول نہیں ہے لہذا وہ ردعمل میں فلسطینیوں کو بالخصوص اہل غزہ کو ہر طرف سے کاٹ کر تنہاکرنے کی کوشش میں ہیں- اسرائیل نے اہل غزہ کو حالیہ پیغام میں کہاہے کہ اگر راکٹ حملے بند نہ ہوئے تو فلسطینیوں کو بھی ایک Hollocausکا سامنا کرنا پڑے گا – اہم ترین حماس رہنما خالد مشعل کو شہید کرنے کی دھمکی دی جا چکی ہے اور فلسطینیوں کو بھاری قیمت چکانے کے لیے تیار ہونے کا کہہ دیا گیا ہے-
لیکن اس کے جواب میں حماس کے اشکلوں nAshkeloراکٹوں نے سرحدی قصبے کو ٹارگٹ کیا ہے جو اس بات کاغماز ہے کہ غزہ سے شروع ہونے والا انتقام نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس کی قوت عمل میں اضافہ بھی ہوگا- یہ قبضہ پہلی مرتبہ حماس کے راکٹوں کی زد میں آیا ہے- اسرائیل کے اندر مقیم عربوں بالخصوص یروشلم کے نواح میں مقیم مسلمان عربوں نے فلسطینی مزاحمت کے حق میں اور اسرائیلی حملوں کے خلاف مظاہرے کئے ہیں جبکہ حسب دستور امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزا رائس نے اسرائیلی حملوں کو مدافعانہ کہہ کر فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکاہے- موجودہ صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ فلسطینی اپنی صفوں میں وحدت رکھیں بالخصوص محمود عباس اور اس کے حمائتیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطینیوں میں مزید تقسیم کا حصہ نہ بنیں اور جمہوری طاقت حماس کو کام کرنے کاموقع دیا جائے –
امریکہ سے البتہ بعید ہے کہ وہ Pro-Israeliرویہ ترک کرے کیونکہ امریکی مفادات اسرائیل کے وجود سے مشروط ہیں لیکن امت مسلمہ کے رہنماؤں کو ضروراور آئندہ جنگ حالیہ فلسطین کی سرحدوں میں نہیں بلکہ خود اسرائیل کی سرحدوں میں لڑی جانے کے روشن امکانات ہیں- جنگ میں انسانی عنصر شامل ہونے سے ایک نیا طرز جنگ سامنے آئے گا جس میں ایٹمی صلاحیت اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں گی- اسرائیلی اس طرز جنگ نہ عادی ہیں اور نہ اس کے لیے تیار-
فروری 2008ء میں بالآخر اسرائیل نے وین گراڈ کمیشن رپورٹ کو سرکاری طور پر جاری کردیا جو حالیہ حزب اللہ اسرائیل جنگ کی تحقیقات کے لیے قائم کیاگیاتھا- وین گراڈ کمیشن نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ 33 روزہ حزب اللہ اسرائیل جنگ میں اسرائیل سیاسی عسکری‘ سفارتی اور حتی کہ میڈیا کے محاذ پر بھی بدترین ناکامی سے دوچار ہوا جس کے ذمہ دارعناصر میں سے اسرائیلی رمی چیف اور اسرائیلی وزیراعظم کو بھی قرار دیا گیا ہے –
جولائی 2006ء میں ہونے والی اس جنگ کا نقطہ غاز غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے بدترین تشدد کے بدلہ کے طور پر حزب اللہ کے ہاتھوں 2اسرائیلی فوجیوں کا اغوا جبکہ سات کی ہلاکت تھا- غزہ میں جاری ظلم و ستم کم کرنے کے لیے حزب اللہ نے اسرائیلی افواج کو Engageکیا- نتیجتاً خطے میں ایک مہلک جنگ شروع ہوئی اور اسرائیل کو تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگ کی جدت مقبوضہ فلسطین یا حالیہ اسرائیل کے اندر بہت گہرائی تک محسوس ہوئی اور اس کے ناقابل شکست ہونے کا اضافہ خواب بن کر رہ گیا- اس جنگ سے اسرائیل نے کوئی سبق سیکھا ہو یا نہ فلسطینیوں نے ضرور سیکھا ہے اور اب فلسطینی اسلامی جہاد اور حماس نے انہیں sTechticاور جنگی حکمت عملیوں کو استعمال کرنا شروع کیا ہے جو حزب اللہ نے اپنائی تھیں جس کے نتیجہ میں اسرائیل پہلی بار غزہ کے حوالے سے ایک مخمصہ میں مبتلا ہوگیا ہے اور مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے یے اسرائیلی عسکری قوت کابھرپور استعمال کررہاہے –
دو روزہ اسرائیلی حملہ میں میڈیکل ذرائع کے مطابق 125 سے زائد افراد شہید جبکہ سینکڑوں شدید رخمی ہیں- تازہ ترین حملوں میں ایک نوازائیدہ بچی سمیت کم ازکم 25 مزید افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نے پارلیمانی دفاعی امور کی کمیٹی سے خطاب میں کہا ہے کہ ہم ایک بڑی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ہمارا ہدف دونکاتی ہے – 1- حماس کو کمزور کرنا ‘2- راکٹ حملوں کو روکنا اور اس کے لیے ہم بری ‘ فضائی طاقت کابھرپور استعمال کریں گے جبکہ اسرائیل انسانی حقوق کے گروپ B.Salem نے رپورٹ میں کہا ہے کہ اب تک اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر بچے اور عورتیں یا سویلین افراد تھے-
غزہ ایک مرتبہ پھرFlash Point بن چکاہے- 2/1/1 ملین سے زائد آبادی والا یہ فلسطینی خطہ ہر لحاظ سے اسرائیلی رحم و کرم پر ہے- وہ جب چاہتے ہیں تمام علاقے کو بنیادی ضروریات‘ پانی ‘بجلی اور اشیائے خوردونوش کی فراہمی روک سکتے ہیں- واحد متصل ملک مصر ہے جو اسرائیل کے ساحت اپنے معاہدوں کی بناء پر اور امریکی دباؤ کی وجہ سے فلسطینیوں کی کسی بھی مدد کرنے سے انکاری ہے – جبکہ دوسری طرف امریکہ نے VS COAL نامی بحری بیڑے کو دو چھوٹے جنگی جہازوں کی معیت میں لبنان روانہ کردیا ہے- یوں خطہ ایک مرتبہ پھر کسی بڑی جنگ کا شکار ہوسکتاہے –
غزہ کو مزاحمت کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے لیکن اس کے اثرات After effectsبھی بہت گہرے ہوں گے- حماس کی منتخب حکومت کو جب امریکی ایماء پر تحلیل کردیاگیا تو الفتح کے اراکین نے بڑی تعداد میں غزہ کے علاقے میں حماس رہنماؤں کے حوالے سے اسرائیل کو معلومات فراہم کیں جس پر اسرائیل نے راکٹ حملوں اور جہازوں سے حملوں کے ذریعے فلسطینی قیادت میں سے ایک بڑی تعداد کوTarget Killing کا شکار کیا- ردعمل کے طور پر حماس نے الفتح کی پولیس اور انتظامیہ کو بے اثر بنا کر اپنی انتظامیہ اور پولیس تعینات کی یوں یہ خطہ مکمل طور پر حماس کے کنٹرول میں چلا گیا اور یہی بات اسرائیل کے لیے قابل برداشت نہ تھی- دوسری طرف حماس نے اپنے شہداء کا انتقام لینے کے لیے راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع کیا- یہ راکٹ مقامی طور پر تیار کئے جاتے ہیں اور 30 سے 35 میل تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں –
اپنی تمام تر کوششوں اور غیر متوازن جنگی طاقت کے استعمال کے باوجود ایک دن کے لیے بھی اسرائیل ان حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکااوران دو روز میں جب 125فلسطینی غزہ میں شہید ہوئے – اسرائیل پر 24 سے زیادہ راکٹ داغے گئے – ان راکٹوں کے مالی نقصان سے زیادہ یہ نفسیاتی نقصان ہے کہ اسرائیل ان کو رورکنے میں ناکام بھی ہے اور اطراف کے ایک بڑے علاقے کے ملین صہیونی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور یہ اسرائیل میں ان کے کاروبار سمیت امن اور ترقی کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے- آبادی کی ہئیت کو بدلنے کے لیے Demographic Change کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسرائیل یہودیوں کو incentiveمہیا کرتا رہے- آبادی کی ترتیب میں یہی تبدیلی مستقبل کے اسرائیل کا تعین کرے گی- ویسٹ بینک میں 1997ء میں فقط 500یہودی آباد تھے- 2000ء میں ان کی تعداد 200000 تک پہنچ گئی تھی- اسرائیلی دنیا کی چند بڑی شہری آبادیوں میں شمار ہوتاہے جو GNP کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ آمدنی و الی سوسائٹی بھی ہے- اس کا GNPملحقہ مصر سے 12فیصد جبکہ اردن سے 15فیصدزیادہ ہے- یہ سب وہ پرکشش علامتیں ہیں جو دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل میں بسانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں تاکہ اسرائیل آبادی کے اعتبار سے بھی قوت پڑنے اور فلسطینیوں کے غلبے کا تدارک بھی ہوسکے-
گریٹر اسرائیل کے خواب کی تکمیل کے لیے یہودیوں کی آبادکاری ایک ضروری عمل شمار کیا جاتاہے- حالیہ فلسطینی انتفاضہ gUprisinنے اسرائیل کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے- یہودی آبادکاری میں نمایاں کمی آئی ہے جبکہ غیر محفوظ اسرائیل کسی بھی یہودی بزنس مین کے لیے پسندیدہ جگہ قرار نہیں پاسکتی- یوں جس اسرائیل کو امریکی اور یورپی امداد سے High Techسوسائٹی بنادیاگیاتھا جس میں 400 سے زیادہ جدید ترین صنعتیں سرگرم تھیں اور جو ایجادات میں Foruth Generationاگلی نسل کی چیزیں تیار کررہاتھاکہ مرکافہ ٹینک جس کی ایک مثال ہے فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کو Backgair Statusحالت میں تنزل میں لا کھڑا کیا ہے – لبنان جنگ کے بعد پہلی مرتبہ اسرائیل معاشی خسارے سے دوچار ہوا جبکہ غزہ میں انتفاضہ کے عمل نے جہاں اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاوں کو خطرے سے دوچار کردیا ہے وہاں فلسطینی بھی ایک نئے عزم سے روشناس ہوئے ہیں کہ اسرائیل کا بت چکنا چور ہورہاہے اور اس کی معیشت کے غبارے سے بھی ہوا بڑی تیزی سے نکل رہی ہے –
اسرائیلی یونیورسٹیوں میں ہونے والے ایک جدید سروے کے مطابق نوجوان اسرائیلیوں کے لازمی فوجی تربیت کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے اور وہ اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں- اسرائیلی سوسائٹی بالعموم اور اسرائیلی افواج بالخصوص حالیہ ناکامیوں کے نتیجہ میں demoralize ہوئی ہیں اور ان کا مورال پست ہوا ہے – دنیا حیران ہے کہ ہر روز درجنوں جناز ے اٹھانے کے باوجود بھی اسرائیل کی خواہش کے برعکس غزہ کے رہنے والے مزید قربانیوں کے لیے توتیار ہوتے ہیں لیکن حماس کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے- اسرائیل کے غزہ پر حملے اور پھر انخلا کو حماس کی فتح سے تعبیرکیا- اس سارے عمل نے فلسطینی مسئلہ میں ایک نئے عنصر کو تقویت دی ہے اور یہ عنصر ہے کہ خود پر بھروسہ کرتے ہوئے دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے شہادت طلبی کے ساتھ اگر مقاومت کی جائے تو جنگی ہتھیاروں کے لیے بے دریغ اور وحشیانہ استعمال سے تلوار کے مقابلے میں خون واضح طور پر سرخرو نظر آتاہے-
جنگیں ہتھیاروں کے ساتھ لڑی جاتی ہیں- ہتھیاروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریات کی بناء پر غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے فطری طور پر فلسطینیوں کو بالخصوص حماس کو حزب اللہ اور ایران سے قریب کردیا ہے- عرب دوستوں کی بے وفائی اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی خاموشی جیسے عوامل نے بھی فلسطینیوں کو ایران سے زیادہ قریب کیا ہے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں بڑھتاہوا ایرانی نفوذ اسرائیل کے لیے بڑا چیلنج بن گیاہے- خطے میں ایرانی ایک بڑے Payerاور مسئلہ فلسطین کے بڑے داعی کے طور پر سامنے رہے ہیں اور یہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے لیے قطعاً قابل قبول نہیں ہے لہذا وہ ردعمل میں فلسطینیوں کو بالخصوص اہل غزہ کو ہر طرف سے کاٹ کر تنہاکرنے کی کوشش میں ہیں- اسرائیل نے اہل غزہ کو حالیہ پیغام میں کہاہے کہ اگر راکٹ حملے بند نہ ہوئے تو فلسطینیوں کو بھی ایک Hollocausکا سامنا کرنا پڑے گا – اہم ترین حماس رہنما خالد مشعل کو شہید کرنے کی دھمکی دی جا چکی ہے اور فلسطینیوں کو بھاری قیمت چکانے کے لیے تیار ہونے کا کہہ دیا گیا ہے-
لیکن اس کے جواب میں حماس کے اشکلوں nAshkeloراکٹوں نے سرحدی قصبے کو ٹارگٹ کیا ہے جو اس بات کاغماز ہے کہ غزہ سے شروع ہونے والا انتقام نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس کی قوت عمل میں اضافہ بھی ہوگا- یہ قبضہ پہلی مرتبہ حماس کے راکٹوں کی زد میں آیا ہے- اسرائیل کے اندر مقیم عربوں بالخصوص یروشلم کے نواح میں مقیم مسلمان عربوں نے فلسطینی مزاحمت کے حق میں اور اسرائیلی حملوں کے خلاف مظاہرے کئے ہیں جبکہ حسب دستور امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزا رائس نے اسرائیلی حملوں کو مدافعانہ کہہ کر فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکاہے- موجودہ صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ فلسطینی اپنی صفوں میں وحدت رکھیں بالخصوص محمود عباس اور اس کے حمائتیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطینیوں میں مزید تقسیم کا حصہ نہ بنیں اور جمہوری طاقت حماس کو کام کرنے کاموقع دیا جائے –
امریکہ سے البتہ بعید ہے کہ وہ Pro-Israeliرویہ ترک کرے کیونکہ امریکی مفادات اسرائیل کے وجود سے مشروط ہیں لیکن امت مسلمہ کے رہنماؤں کو ضروراور آئندہ جنگ حالیہ فلسطین کی سرحدوں میں نہیں بلکہ خود اسرائیل کی سرحدوں میں لڑی جانے کے روشن امکانات ہیں- جنگ میں انسانی عنصر شامل ہونے سے ایک نیا طرز جنگ سامنے آئے گا جس میں ایٹمی صلاحیت اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں گی- اسرائیلی اس طرز جنگ نہ عادی ہیں اور نہ اس کے لیے تیار-
ناصر عباس شیرازی ‘ایڈووکیٹ