20 جنوری2008 ء محاصرے کی ہلاکت خیز یوں کے عروج کادن تھا- غزہ کی 15 لاکھ آبادی بجلی کے حصول کے لئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مصر سے آنے والی سپلائی کے رحم و کرم پر تھی- 5 فیصد بجلی جنریٹروں کے ذریعے غزہ ہی سے فراہم ہوجاتی تھی- مقبوضہ علاقوں اور مصر سے آنے والی بجلی پہلے ہی بند کردی گئی تھی- 5 فیصد پر کسی نہ کسی طرح گزارا ہو رہاتھا لیکن یہ جنریٹر بھی تیل سے چلتے ہیں اور ایندھن کی سپلائی گزشتہ سات ماہ سے بند تھی-
20 جنوری کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ اور غزہ کے وقت کے مطابق راست ساڑھے آٹھ بجے آخری جنریٹر بھی تیل نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوگیا- 15 لاکھ افراد پر مشتمل آبادیاں مکمل اندھیرے میں ڈوب گئیں- غزہ مکمل طور پر تاریک ہوگیا- صرف تاریکی ہوتی تو اسے برداشت کیاجاسکتاتھا- لیکن برقی رونہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل بند ہوگئے- پانی ناپید ہوگیا – ہسپتالوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حساس طبی آلات نے کام چھوڑ دیا جن مریضوں کے آپریشن ضروری تھے یا جن کے آپریشن ہوچکے تھے موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہوگئے –
ٹیلی فون ایکسچینج اور موبائل فون کی بیٹریاں ختم ہوگئیں- ذرائع ابلاغ و مواصلات معطل ، نقل وحرکت کے وسائل مفلوج ،زرعی اجناس کھیت سے منڈی منتقل کرنا محال – اسی پر اکتفا نہیں ، ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی بمباری شروع – حماس کے ذمہ داران اور نوجوانوں کو چن چن کر میزائلوں کانشانہ بنایا جانے لگا – منتخب وزیرخارجہ محمود الزہار کا کڑیل جوان بیٹا بھی شہید کردیاگیا- ( ان کا ایک بیٹا 2003ء میں اس وقت شہید ہوگیاتھا جب خود انہیں میزائلوں کانشانہ بنایا گیاتھا-
وہ تو محفوظ رہے ہمراہ جانے والا بیٹا شہید ہوگیا) حصار و تاریکی کے تین روز کے اندر اندر 40 کے قریب افراد کو شہید کردیاگیا- شہداء اور زخمیوں کی جو فہرست غزہ سے جاری ہوئی ہے اسے دیکھا جائے تو ان میں صرف تین افراد ایسے ہیں جن کی عمر بالترتیب 5442 اور 59 سال ہے- باقی سب نوجوان یا بچے تھے –
20 جنوری کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ اور غزہ کے وقت کے مطابق راست ساڑھے آٹھ بجے آخری جنریٹر بھی تیل نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوگیا- 15 لاکھ افراد پر مشتمل آبادیاں مکمل اندھیرے میں ڈوب گئیں- غزہ مکمل طور پر تاریک ہوگیا- صرف تاریکی ہوتی تو اسے برداشت کیاجاسکتاتھا- لیکن برقی رونہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل بند ہوگئے- پانی ناپید ہوگیا – ہسپتالوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حساس طبی آلات نے کام چھوڑ دیا جن مریضوں کے آپریشن ضروری تھے یا جن کے آپریشن ہوچکے تھے موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہوگئے –
ٹیلی فون ایکسچینج اور موبائل فون کی بیٹریاں ختم ہوگئیں- ذرائع ابلاغ و مواصلات معطل ، نقل وحرکت کے وسائل مفلوج ،زرعی اجناس کھیت سے منڈی منتقل کرنا محال – اسی پر اکتفا نہیں ، ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی بمباری شروع – حماس کے ذمہ داران اور نوجوانوں کو چن چن کر میزائلوں کانشانہ بنایا جانے لگا – منتخب وزیرخارجہ محمود الزہار کا کڑیل جوان بیٹا بھی شہید کردیاگیا- ( ان کا ایک بیٹا 2003ء میں اس وقت شہید ہوگیاتھا جب خود انہیں میزائلوں کانشانہ بنایا گیاتھا-
وہ تو محفوظ رہے ہمراہ جانے والا بیٹا شہید ہوگیا) حصار و تاریکی کے تین روز کے اندر اندر 40 کے قریب افراد کو شہید کردیاگیا- شہداء اور زخمیوں کی جو فہرست غزہ سے جاری ہوئی ہے اسے دیکھا جائے تو ان میں صرف تین افراد ایسے ہیں جن کی عمر بالترتیب 5442 اور 59 سال ہے- باقی سب نوجوان یا بچے تھے –