پنج شنبه 01/می/2025

حماس کے نمائندے ڈاکٹر ابو اسامہ عبد المعطی کا انٹرویو

اتوار 18-مئی-2008

لاکھوں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں جو سانحہ فلسطینی قوم کے ساتھ پیش آیا ہے اگر وہ کسی اور کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو اس کا نام و نشان مٹ گیا ہوتا- فلسطین سے انخلاء کے بعد برطانیہ نے صہیونی ریاست کی حفاظت کے ذمہ داری امریکہ کے سپرد کردی- قیام اسرائیل تک فلسطینیوں نے 94.6 فیصد اراضی کو محفوظ رکھا- معاہدہ اوسلو کے بعد فلسطینی ہدف سکڑ گیا اور پی ایل او کی قیادت کے مؤقف میں دستبرداری آگئی- مسئلہ فلسطین کو مذاکرات پسند گروہ نے تباہ کیا-
ان خیالات کا اظہار اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے ایران کے دارالحکومت تہران میں نمائندے ڈاکٹر ابو اسامہ عبد المعطی نے سانحہ قیام اسرائیل کے ساٹھ سال مکمل ہونے کے حوالے سے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا متن زائرین کے لیے پیش خدمت ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: ’’النکبہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟
ابو اسامہ عبد المعطی: فلسطین پر قبضہ ’’النکبہ‘‘ کے نام سے معروف ہے- یہ عظیم سانحہ فلسطینی عوام کو 1948ء میں پیش آیا- فلسطینی قوم اپنے وطن میں امن و امان سے رہ رہی تھی کہ اچانک چودہ مئی 1948ء کا وہ پرتشدد تاریخی لمحہ آیا جب فلسطینی عوام کو نسل کشی کا سامنا تھا- فلسطینی شہروں، دیہاتوں اور آبادیوں کو تباہ کرنا شروع کردیا گیا- فلسطینی زمین اور مقدسات کو غصب کرلیا گیا- فلسطینی بے گھر ہوگئے- آج لاکھوں فلسطینی مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی قبضے میں زندگی بسر کررہے ہیں یا وہ فلسطین سے باہر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں-
جو المناک واقعہ اور المیہ فلسطینی عوام کو پیش آیا ہے تاریخ میں کسی قوم کو درپیش نہیں آیا- اگر اس طرح کے سانحے سے کوئی اور قوم گزرتی تو اس کا نام و نشان مٹ گیا ہوتا- لیکن اللہ کے فضل سے ساٹھ سال گزرنے کے بعد فلسطینی عوام صابر، مزاحم اور مجاہد کی زندگی گزار رہی ہے- وہ اپنے وطن اور اسلامی مقدسات کی آزادی اور وطن واپسی کا عزم لیے ہوئے مزاحمت کررہی ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: برطانوی استعمار کا سانحہ قیام اسرائیل سے کیا تعلق ہے- مبصرین کے خیال میں اسرائیلی قبضے کا اصل سبب برطانوی استعمار ہے- آپ کا اس پر کیا تبصرہ ہے؟
ابو اسامہ عبد المعطی: اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی، اخلاقی اور قانونی لحاظ سے فلسطینی عوام کی مشکلات کا سب سے بڑا ذمہ دار برطانیہ ہے- برطانیہ نے ہی نومبر 1917ء میں بدنام زمانہ اعلان ’’بلفور‘‘ کیا- جس میں کہا گیا کہ برطانوی سلطنت فلسطین میں یہودی قومی ریاست کے قیام کو نظر شفقت سے دیکھتی ہے- برطانیہ ہی نے دسمبر 1917ء میں مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کیا- برطانیہ نے ہی لاکھوں یہودی مہاجرین کو فلسطین میں آباد کرنے کو ممکن بنایا- اس نے گانا، اشترین اور ارگون صہیونی گروپوں کو اسلحہ اور مال فراہم کیا- اس نے وعد بلفور معاہدے پر عمل کا اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا- اس نے صہیونی تنظیموں کو مسلح کیا جب کہ فلسطینیوں کو اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ دی- اخیر میں فلسطین سے اچانک برطانوی انخلاء فلسطینیوں کے لیے اچنبھہ تھا- برطانیہ نے 14 مئی 1948ء کو فلسطین سے انخلاء کیا اور فلسطینیوں کو بالکل کوئی موقع فراہم نہیں کیا کہ وہ اپنے دفاع کے لیے اسباب پیدا کرسکیں- صہیونی علاقوں سے 6 ماہ قبل انخلاء کیا جاچکا تھا اور برطانوی سلطنت نے صہیونیوں کے لیے بہت سا اسلحہ اور جنگی سازوسامان چھوڑا- برطانیہ نے صہیونی فوج کو تیار کیا- برطانیہ سیاسی، تاریخی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس سانحہ کا ذمہ دار ہے جس میں آج بھی فلسطینی عوام مبتلا ہیں-
مرکز اطلاعات فلسطین: کیا برطانیہ نے فلسطینی عوام کے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی لائی ہے؟
ابو اسامہ عبد المعطی: برطانیہ جب سے فلسطین سے نکلا ہے اس نے صہیونی ریاست کی حمایت اور مدد کی ذمہ داری امریکہ کے سپرد کردی ہے- امریکی حمایت و مدد کا ہدف اول علاقے میں مغربی مفادات کی حفاظت اور ایسے اسلامی بیداری اور ترقی کے منصوبوں کو روکنا ہے جو اس مفادات کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں- برطانیہ نے آج تک فلسطینی عوام کے خلاف اپنے جرم کے متعلق غور نہیں کیا- وہ اسرائیلی ریاست کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے- وہ امریکی فلک میں گردش کرتے ہوئے، عراق اور افغانستان میں جارحانہ استعماری غلطیوں کا ارتکاب کررہا ہے- وہ فلسطینی حقوق سے انکاری ہے اور ظلم پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ فلسطینیوں کا یہودیوں کو زمین بیچنا فلسطین پر صہیونی قبضے کا اصل سبب ہے- آپ اس دعوے کا کیا جواب دیں گے؟
ابو اسامہ عبد المعطی: فلسطینیوں کی زمینیں فروخت کرنے کا قصہ جھوٹا اور مضحکہ خیز ہے- اس دعوے کو صہیونی ذرائع ابلاغ کے آلہ کاروں نے عام کیا ہے- جسے عالم اسلام کے بعض انصاف پسندوں نے بھی قبول کرلیا- جھوٹی روایات کو عام کرنے کا مقصد صہیونیوں کا اس قتل عام سے فرار ہے جو انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف کیا اور دوسرا مقصد مسئلہ فلسطین کے لیے امت مسلمہ کی ہمدردی کو ختم کرنا ہے-
یہی وہ ذرائع ہیں جنہوں نے رپورٹیں نشرز کی ہیں کہ 1917ء سے پہلے یہودیوں کے پاس فلسطین کے ایک فیصد سے زائد زمینیں نہیں تھیں- 1917ء سے 1948ء تک برطانوی قبضے کے دوران یہ تناسب بڑھ کر 6.6 فیصد ہوگیا- صہیونیوں نے برطانوی استعمار کے تعاون سے فلسطین کی 66 فیصد زمین حاصل کرلیں- فلسطینیوں نے اسرائیل کے قیام تک فلسطین کے 94.4 فیصد زمینوں کو محفوظ رکھا- اس کے بعد المناک واقعہ کا آغاز ہوا- فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا- صہیونی گروپوں نے فلسطینی شہروں اور دیہاتوں کو تباہ کردیا- فلسطینی شہری بے گھر ہوگئے ان کی زمین اسلحہ کے زور پر ہتھیالی گئی- کمانڈر کی غداری کی وجہ سے عرب ممالک کی افواج کی ناکامی کے بعد اسرائیلی ریاست نے 1948ء میں فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کرلیا- عرب ممالک کی فوجوں کی قیادت انگریزی جنرل گلوب پاشا کے پاس تھی- پھر اسرائیل نے 1967ء میں فلسطین کے باقی ماندہ بائیس فیصد حصے پر بھی قبضہ کرلیا جو مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل تھا- مغربی کنارہ اور بیت المقدس اردنی مملکت کا حصہ تھا جبکہ غزہ مصری انتظامیہ کے زیر کنٹرول تھا-
یہ ہے بیت المقدس اور فلسطین پر برطانوی، صہیونی جارحیت کی کہانی جسے اقوام متحدہ کی آشیر باد حاصل رہی جبکہ عرب ممالک کی قیادت خاموش تماشائی بنی رہی-
مرکز اطلاعات فلسطین: بین الاقوامی اور عرب قیادت کے صہیونی جارحیت کے متعلق مؤقف کا تو آپ نے ذکر کیا، لیکن عرب اور مسلم عوام کا کیا کردار رہا؟
ابو اسامہ عبد المعطی: عرب اور مسلم عوام بالخصوص اسلامی تحریکیں فلسطین اور بیت المقدس کی محبت سے سرشار ہیں- وہ فلسطین میں جہاد اور فلسطینی عوام کی مدد کے لیے بے تاب رہیں- عرب ممالک میں فوجی کیمپ کھولے گئے- اسلامی تحریکوں میں حسن البناء شہید کی قیادت میں اخوان المسلمون سرفہرست تھی- جنہوں نے مصر، شام، اردن، عراق اور دیگر ممالک سے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ لڑائی کے لیے ہزانروں رضاکار بھیجے- فلسطینیوں کے بزرگ اب بھی بڑے فخر، محبت اور اعزاز سے ان نوجوانوں کی شجاعت کی داستانیں سناتے ہیں- جنہوں نے صہیونی گروپوں کے خلاف قابل فخر معرکے لڑے- لیکن سازش ان معرکوں سے بھی بڑی تھی- امام حسن البناء کو شہید کردیا گیا- مصر میں اخوان المسلمون پر پابندی عائد کردی گئی- ملک فاروق کی جانب سے اخوان المسلمون کی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا- مصر میں ہزاروں مجاہدین کو پابند سلاسل کردیا گیا- یہ سب کچھ فلسطین کے خلاف سازش کو کامیاب بنانے کے لیے کیا گیا- برطانوی اور مغربی خواہش کی تکمیل کے لیے صہیونی ریاست کے قیام کی تمہید تھی- واضح رہے کہ مغربی استعمار اس وقت اردن، شام، عراق اور دوسرے عرب ممالک پر قابض تھا-
مرکز اطلاعات فلسطین: فلسطین پر قبضے کے ساٹھ سال گزرنے کے بعد اب مسئلہ فلسطین کہاں پر کھڑا ہے؟
ابو اسامہ عبد المعطی: اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ فلسطینی عوام قومی منصوبے کے طریقہ کار، خدوخال، اہداف، ذرائع اور قیادت پر متفق ہیں- معاہدہ اوسلو سے پہلے تقریبات کا پوری فلسطینی عوام متحد تھی اور ان کا ہدف مکمل فلسطین کی آزادی تھا- یہ وہ ہدف تھا جس حصول کے لیے پی ایل او کوشاں تھیں اور اس ہدف کے حصول کا ذریعہ مزاحمت اور مسلح جدوجہد تھا- معاہدہ اوسلو کے بعد فلسطینی ہدف سکڑ گیا اور پی ایل او کی قیادت کے مؤقف میں دستبرداری آگئی- اس کا مقصد 1967ء کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کا قیام بن گیا اور فلسطین کے 78 فیصد حصے پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرلیا گیا- ہدف کے حصول کے لیے وسائل کو بھی محدود کردیا گیا- ہدف کے حصول کے لیے صرف پرامن راستہ اور مذاکرات کا طریقہ کار اختیار کیا گیا فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد اس کا اولین ہدف مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنا اور مجاہدین کی گرفتاری بن گیا- اس کے بعد عملی طور پر پی ایل او کا کردار ختم ہوگیا- وہ صرف نام کی تنظیم تھی- ہمارے خیال میں مسئلہ فلسطین کو مذاکرات پسند گروہ نے تباہ کیا- حماس تمام مخلص فلسطینی گروپوں اور سول سوسائٹی کے تعاون سے عوامی امنگوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے کام کررہی ہے اور وہ ان امنگوں کے حصول میں ان شاء اللہ کامیاب ہوگی-

مختصر لنک:

کاپی