چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطین کے بارے میں یورپ کے دوہرے معیار کیوں ؟

بدھ 28-مئی-2008

عموماً بین الاقوامی امور اور تنازعات کے بارے میں یورپ کا نقطہ ء نظر امریکہ کی نسبت زیادہ منصفانہ اور مبنی برحق محسوس ہوتاہے تاہم جب فلسطینیوں کی حالت زار کے بارے میں بات آتی ہے تو مغرب کا نقطہ ء نظر بھی غیر واضح اور تکلیف دہ بن کر سامنے  آتاہے –

حالیہ برسوں میں یورپی لیڈر مثلاً جرمنی کی مرکل، فرانس کے سرکوزی برطانیہ کے برائون اور اٹلی کے برلسن کونی، مسلسل اسرائیل کی دہشت گردی اور فلسطینیوں کے قتل عام اور فلسطینی علاقوں میں نسلی تطہیر کی ایک لحاظ سے حمایت کرتے رہے ہیں- اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ واشنگٹن سے اسرائیل کے بارے میں جس لب و لہجہ میں بات ہوتی ہے، مغرب کا رویہ اس سے مختلف ہوتاہے، تاہم دونوں معاملات میں جو نتیجہ نکلتاہے وہ ایک ہی ہوتاہے، امریکہ اور یورپ فلسطین ، سوڈان اور ایران کے ساتھ معاملے کرتے ہوئے وہ بے ایمانی کامظاہرہ کرجاتے ہیں-

یورپ اس انداز میں امریکی پالیسی کی نقالی کرتارہاہے کہ مشرق وسطی کے لوگ یہ سمجھنے پر مجبور
ہوجاتے ہیں کہ کیا یورپ بھی امریکی ، نیوکونز کی زد میں آگیا ہے – یہ بات حقیقی طور پر جان لینا چاہیے کہ کوئی بھی فلسطینی یا عرب یہ نہیں چاہتاکہ یورپی ممالک مثلاً جرمنی، اسرائیل کے خلاف معاندانہ یا مخاصمانہ کردار اختیار کرے -جرمنی کا ہولوکاسٹ میں جو بھی کردار رہاہے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ، جرمنی کو یہ صرف کرنا چاہیے کہ اسرائیل پر واضح کردے کہ فلسطینیوں کا محاصرہ اور ناکہ بندی تمام انسانی حدود کو پار کرنے کے مترادف ہے- ان کو بھوکوں مار دینا اور ان کو ہلاک کردینا ایسے اقدامات ہیں کہ جس کی بناء پر اسرائیل سے صرف نظر کرنا مناسب نہیں ہے، یورپی حکومتوں کے چند اہل کار کبھی کبھار ایسے بیانات جاری کردیتے ہیں جس میں اسرائیلی مظالم پرتنقید کی گئی ہوتی ہے اور فلسطینیوں کے خلاف ان کے اقدامات کو مسترد کیاگیا ہوتاہے، تاہم ان بیانات پر کوئی ردعمل سامنے نہ آنے سے ثابت ہوتاہے کہ یورپی یونین مسئلہ فلسطین پر ایمانداری سے فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے –

اسرائیل کے مجرمانہ کردار کے بارے میں یورپ سنجیدگی اور ایمانداری سے غور کرے تو مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس کے واقعات وہ یہ نتیجہ اخذ کرسکیں گے کہ یہ مظالم 1943ء میں وارسا کے انسانی باڑوں میں پیش آنے والے واقعات سے مختلف نہیں ہیں- مغربی ممالک کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو بتا دیں کہ بلا جواز معصوم لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، شہید کرنا اور موت کے کے گھا ٹ اتارنا یہ ثابت کرتاہے کہ اسرائیل عالمی برادری کا حصہ بن کر رہنے کے لیے تیار نہیں ہے اور عالمی طور پر جو قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، اسرائیل ان کی سراسر خلاف ورزی کررہاہے – مغربی ممالک اسرائیل کو بتادیں کہ مغربی کنارے میں نازی طرز کی پانچ سو سے زائد رکاوٹوں کی تعمیر ہر فلسطینی قصبے، شہر، دیہات اور ٹاؤن کے لیے شدید مصیبت میں ہے اور اہل یورپ اسرائیل کے اس رویے کو مزید برداشت نہ کریں گے- یورپ اسرائیل کو یہ بھی بتا دیں کہ سینکڑوں فلسطینی ادیبوں، قلم کاروں، صحافیوں اور دانشوروں کو غزہ کی پٹی میں داخل نہ ہونے کی اجازت نہ دینا بھی انسانیت کے خلاف جرم ہے –

اسرائیل کو سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطینی علاقوں میں جو مظالم ہو رہے ہیں اہل یورپ اس سے آگاہ ہیں اور وہ جان بوجھ کر گونگے بہرے، اندھے مبصر کا کردار ادا کررہے ہیں اس طرز عمل سے فلسطینی تنہا رہ جاتے ہیں اور یہ طرز عمل انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے – حال ہی میں اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ مغربی کنارے میں سینکڑوں آباد کار رہائشی یونٹ تعمیر کئے جائیں گے – لیکن یورپ نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی-

فرانس کے وزیر خارجہ برنارڈ کوچنر نے جو مذہباً یہودی ہیں، نے گزشتہ ہفتے مغربی کنارے میں ہونے والی سرمایہ کار کانفرنس میں اس پر تنقید کی، تاہم صدر سارکوزی کا اسرائیل نے جس طرح گرم جوشی سے خیر مقدم کیا ہے اس سے محسوس ہوتاہے کہ فرانسیسی حکومت یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ نے جو پیغام دیا ہے اسے کالعدم قرار دیا جائے -حالیہ برسوں میں اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ مغربی کنارے میں ایسی بستیاں تعمیر کی جائیں گی جن میں صرف یہودی رہیں گے، چار ممالک کی کمیٹی نے جو ‘‘نقشہ راہ’’  مرتب کیا ہے یہ اس کی سراسر خلاف ورزی ہے جو فلسطین اور اسرائیلی اتھارٹی کے درمیان طے پایا تھا-

اقوام متحدہ کی رپورٹ (23 مئی ) کے مطابق، گزشتہ ستمبر سے مغربی کنارے میں اسرائیلی رکاوٹوں میں سات فی صد اضافہ ہوا ، یہ سب کچھ ان تمام اپیلوں کے باوجود ہوا کہ جو صہیونی ریاست سے کی گئیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرے – بیت المقدس میں اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ 4ستمبر 2007ء سے 2اپریل 2008ء تک راستوں پر قائم رکاوٹوں میں اضافہ ہوا، ان کی تعداد 566سے بڑھ کر 607ہوگئی- اسرائیل نے 103رکاوٹیں ختم کیں اور 144نئی رکاوٹیں وجود میں  آگئیں- یورپ کے دارالحکومتوں سے اس پرکوئی ردعمل سامنے نہیں  آیا یہ وہی ممالک ہیں کہ جب حماس نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کو تسلیم کرنے سے انکار کردیاتھا تو انہوں نے حماس کے بائیکاٹ کااعلان کیاتھا –

یہ شرمناک خاموشی، فلسطینی معیشت کو تباہی و بربادی کے غار میں دھکیل رہی ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کررکھی ہے- ٹونی بلیئر نے فلسطینیوں کے حوالے سے ‘‘اپنی معیشت پہلے’’  پالیسی دہرائی ہے اور کہاہے کہ اگر فلسطینیوں کو معیشت کے حوالے سے ترغیبات دی جائیں تو فلسطینیوں کی واپسی جیسے مسائل سے فلسطینی رجوع کرلیں گے- ٹونی بلیئر نے اسرائیلی افسران سے جس قدر ملاقاتیں کی ہیں اور جس قدر بلند بانگ دعوے کئے ہیں ان سب کے باوجود وہ پانچ سو سے زائد رکاوٹوں میں ایک یادو رکاوٹیں بھی مغربی کنارے سے ہٹوانے میں ناکام رہے ہیں-

ٹونی بلیئر دنیا بھر کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر اسرائیلی تسلط کے اندر فلسطینیوں کو بہتر اقتصادی مواقع فراہم کئے گئے تو مسئلہ فلسطین حل ہوجائے گا- مسئلہ فلسطین کے بارے میں یورپی دارالحکومتوں کی اسی طرز کی نامناسب پالیسی رہی تو یہ مشرق وسطی کے لیے اور علاقے کے لیے اور عالمی امن کے لیے بہتر نہ ہوگا- اگر یورپ امریکہ کے ساتھ مل کر اس بات کی اجازت دیتاہے کہ جنگل کی قوتیں ، کھیل کے ضوابط مرتب کریں تمام قوتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر موت ہی فیصلہ کن چیز ہے تو پھر ہر طاقتور ، ہر کمزور کو غلام بنالے گا-

میں یہ بات اس لیے کہہ رہاہوں کہ محسوس یہ ہوتاہے کہ امریکہ اور یورپی فلسطینیوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ جب تک آپ لوگ کمزور ہیں،  آپ کی عصمت دری ہوتی رہے گی اور آپ کو شہید کیا جاتا رہے گا – ایران نے یہ پیغام سمجھ لیا ہے اور دوسری ریاستیں یہ پیغام سمجھنے کے لیے تیار نہیں-

مختصر لنک:

کاپی