حالیہ دنوں میں اسرائیلی لیڈروں نے ایران کے خلاف اپنے بیانات میں اضافہ کردیا ہے- اسرائیلی کابینہ کے ایک اہم رکن کا 6 جون کو یہ بیان شائع ہو چکا ہے کہ ’’ایران پر حملہ ہو کر رہے گا-‘‘
اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے واشنگٹن میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے ملاقات سے واپسی کے موقع پر اعلان کیا کہ ’’امریکہ اسرائیل اس پر متفق ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو ایران کے جوہری پروگرام کا خاتمہ ہونا چاہیے-‘‘
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یا امریکہ کی جانب سے حملہ ایک آزاد ریاست کی خودمختاری پر حملے کے مترادف ہوگا- اس حملے کی وجہ سے تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے- ایران، اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف نازی نما طرز عمل کی بدولت اس کی مخالفت کرتا ہے لیکن ایران نے اسرائیل پر کبھی حملہ نہیں کیا- یہ بھی درست ہے کہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد عموماً یہ بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ اسرائیل کو دنیا سے نقشے مٹا دیا جائے گا جس سے صہیونی حکومت کو موقع مل جاتا ہے کہ ان بیانات کا سہارا لے کر مغربی ممالک کو تیار کیا جائے کہ وہ ایران کا بائیکاٹ بھی کریں- ایرانی جمہوریہ کو عالمی برادری میں تن تنہا کر ڈالیں-
احمدی نژاد نے بذات خود اور دیگر ایرانی افسران نے یہ کئی بار واضح کیا ہے کہ ایران یہودیوں یا یہودی مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ صہیونیت کے خلاف ہے کیونکہ صہیونیت ایک مجرمانہ نظریہ ہے جس کی بنیاد پر اجتماعی قتل عام اور دوسری نسل کے لوگوں کو ہلاک کرنے پر ہے-
اس بیان سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اگر احمدی نژاد حقیقی طور پر یہودیوں یا یہودی مذہب کے خلاف ہوتے تو وہ ایران میں موجود یہودی شہریوں کے خلاف سب سے پہلے کارروائی کرتے- یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈے کے باوجود ایران میں لاکھوں یہودی آرام دہ زندگی بسر کررہے ہیں- نازیوں کے پراپیگنڈہ کے وزیر جوزف گوئیلز نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ ایک جھوٹ بولیں اور اس کو بار بار دہرائیں تو لوگ اسے سچ سمجھنا شروع کردیں گے‘‘ صہیونی لیڈروں نے بھی یہی پالیسی اختیار کررکھی ہے جو ایران کے خلاف جھوٹی اطلاعات، الزامات اور آدھے سچ دنیا میں پھیلارہے ہیں تاکہ واشنگٹن میں حکمران
نیم پاگل شخص اور ’’نیوکونز‘‘ کے مجرموں کا گروہ اسرائیل کے کہنے پر ایران پر حملہ آور ہو جائے-
علاقے کی کئی دوسری عرب ریاستوں کے برخلاف ایران ایک قابل احترام ملک ہے جو اپنا احترام بھی کرتا ہے اور اپنی آزادی کا احترام کرنا بھی جانتا ہے- اس نے امریکہ کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کردیا ہے اور اہل مغرب کی اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ چونکہ نازیوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران یہودیوں پر مظالم کیے تھے اس لیے انہیں حق حاصل ہے کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کریں-
ایران کے خلاف جو بھی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے اس کے باوجود ایران، فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات سے انکاری نہیں ہے- ایران یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے بعد انہیں بیس فیصد رقبے پر کٹی پھٹی ریاست دے دی جائے اور اس کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ بقیہ سارا رقبہ اسرائیل کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ اس علاقے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے- ایران واشگاف الفاظ میں اعلان کرچکا ہے کہ ’’اس علاقے میں نسلی تطہیر‘‘ نہ کی جائے-
ایران جو بات کہہ رہا ہے کیا وہ دنیا بھر کے باضمیر اور باہوش لوگوں کی آواز نہیں ہے؟-
تاہم اسرائیل کی جانب سے ایران کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی سے مالا مال طاقتور ایران علاقے میں عرصہ دراز سے موجود بالادستی کے لیے چیلنج بن جائے گا- گمان کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے سینکڑوں کے حساب سے تنصیبات موجود ہیں اور ان کو پہنچانے کا نظام بھی موجود ہے- اسرائیل کو امریکی سیاست، امریکی پالیسیوں، امریکی سیاسی جماعتوں، امریکی ذرائع ابلاغ، کانگرس اور سینٹ کے ارکان اور صدارتی امیدواروں تک رسوخ حاصل ہے اور وہ اپنے آپ کو یہودی لابی خصوصاً ایپک تنظیم کے آگے جوابدہ یا سنتے ہیں انہیں اپنے اسمبلی کے حلقوں اور عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے- حال ہی میں جمہوری پارٹی کے صدارتی امیدوار باراک اوباما نے گزشتہ ہفتے ایپک کے اجلاس سے خطاب کیا تھا-
ایپک کو امریکہ کی مضبوط گرفت حاصل ہے اور اگر کوئی امریکی سیاستدان کسی بھی حوالے سے اسرائیل یا اسرائیلی مفادات پر بحث کرتا ہے یا فلسطینیوں کے قتل عام کے بارے میں آواز اٹھاتا ہے امریکہ کے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے میں خوشگوار ردعمل کا اظہار کرتا ہے اسے اپنے آپ کو سیاسی خودکشی کے لیے یہ کسطرح ممکن ہے کہ ایران جیسا تیسری دنیا کا ملک جوہری صلاحیت کے حامل اسرائیل کے لیے خطرہ بن جائے- جس کی حمایت دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کررہی ہے اور جو اسرائیل کا واحد نگران ہے-
علاوہ ازیں ایران کو فطری طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ جوہری توانائی حاصل کرے اور چاہے تو یہ توانائی فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے-
اگر اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ سینکڑوں جوہری تنصیبات کا ڈھیر لگا لے اور ان ہتھیاروں کو اکٹھا کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ قاھرہ، استنبول، دھران اور دمشق کو ڈرا کر رکھا جائے- آخر مسلمان ریاستیں مثلاً ایران، مصر اور سعودی عرب کیوں یہ حقوق حاصل نہیں ہے کہ وہ بھی جوہری ہتھیار حاصل کریں کیا اسرائیلیوں کے جوہری ہتھیار پاک ہیں، قیمتی ہیں اور مقدس ہیں- کیا یہودی بم ’’حلال‘‘ ہوتا ہے-میں جوہری ہتھیاروں کا حمایتی نہیں ہوں اور نہ ہی مستقبل میں کبھی اس کا امکان موجود ہے کہ اس صورتحال سے اسرائیل جیسی مجرم ریاستوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ دنیا بھر کے لوگوں اور مجموعی طور پر ساری دنیا کو بلیک میل کریں-
جوہری ہتھاروں کی بناء پر ہی اسرائیل کو موقع ملا کہ وہ تیونس، بغداد، شام کو حملے کی دھمکیاں دے- مصر کے اسوان ڈیم کو اڑا دینے کی دھمکی دے اور بعد ازاں مظلوموں سے کہے کہ ’’اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو‘‘ اسرائیل کو یہ حقیقت سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل کی جانب سے بموں کے ڈھیر لگانا اور خاموشی کے ساتھ مسلم دنیا کو بتانا کہ ہم نے بموں کے ڈھیر لگا لیے ہیں، ناقابل تسلیم ہے- اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کررہا ہے ساری دنیا اسے دیکھ رہی ہے-
دنیا کے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ وہ بھی اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ اکٹھا کریں- اگر انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار اکٹھے نہ کیے تو اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے سے آگے بڑھ کر ان کی آزادی سلب کرسکتا ہے-