درخواست شدت پسند یہودیوں کے ایک گروپ نے دائر کی تھی اور اس میں جمعرات کو ہونے والی گئے پریڈ کو اشتعال انگیز قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا.ماضی میں اس سالانہ مارچ کے موقع پرتشدد کے واقعات اور ہنگامے ہو چکے ہیں.مقبوضہ بیت المقدس کی میونسپلٹی نے بھی اس ایونٹ پر اعتراض کیا ہے .سٹی ترجمان غدی شمرلنگ نے ایک بیان میںخبردار کیا ہے کہ اس سے ”سماجی تعلقات” کو نقصان پہنچ سکتا ہے.عدالت نے اپنی رولنگ میں قرار دیا کہ پریڈ کے منتظمین ایونٹ کے اشتعال انگیز نہ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں.
دوہزار پانچ میں ایک الٹراآرتھوڈ کس یہودی نے ہم جنس پرستوں کی ”گئے پریڈ” کے تین شرکاء کو چاقو گھونپ دیا تھا جس کے بعد اسے بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی.اس سے اگلے سال الٹرا آرتھوڈکس یہودیوں کی جانب سے پرتشدد ہنگاموں کے بعد پریڈ کو ایک سپورٹس سٹیڈیم میں منتقل کرنا پڑا تھا.گذشتہ سال ہزاروں لوگوں کےمظاہروں کے باوجود قریباً ڈھائی ہزار ہم جنس پرستوں اور ان کے حامیوں نے کنگ ڈیوڈ سٹریٹ میں مارچ کیا تھا.
پریڈ مارچ کا اہتمام کرنے والے اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لئے کوشاں یروشلم اوپن ہاٶس نے کہا ہے کہ پریڈ سے اسرائیل کے جمہوری ملک اور شہری حقوق کا علمبردار ہونے کاحقیقی امتحان ہو گا.گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ ہماری جدوجہد بہت مشکل ہے لیکن تشدد کی دھمکیاں ہمیں خاموش کر سکتی اور نہ اسرائیلی جمہوریت کو چیلنج کر سکتی ہیں.