پنج شنبه 01/می/2025

یہود کی قدیم کتب خفیہ طور عراق سے اسرائیل پہنچا دی گئیں

ہفتہ 28-جون-2008

صدام حسین کے دورمیں عراق کی یہودی کمیونٹی سے ضبط کی گئی کم سے کم تین سو نایاب اور قیمتی کتب خفیہ طور پر اسرائیل سمگل کر دی گئی ہیں.

ایک اسرائیلی روزنامے”ہارتز” میں جمعہ ستائیس جون کو چھپنے والی رپورٹ کے مطابق ان کتابوں میں بائبل کا 1487ء میں شائع شدہ ترجمہ اور 1617ء میں وینس میں چھپا انجیل کا نسخہ بھی شامل ہے.
یہ تمام نسخے ان کتابوں میں سے ہیں جو سابق عراقی صدر کے دورمیں خفیہ پولیس نے ضبط کئے تھے اور انہیں عراقی دارالحکومت بغداد میں سخت سکیورٹی والی جگہ میں محفوظ کیا گیا تھا.

مارچ دوہزار تین میں عراق پرامریکی حملے کے بعد پہلے ہفتے کے دوران بمباری سے سرکاری عمارتوں کی تباہی سے ان کتب کوبھی نقصان پہنچا.اپریل دوہزار تین میں صدام حکومت کے خاتمے اور بغدادپر امریکی اتحادیوں کے قبضے کے بعد زیادہ تر کتابیں عارضی طور پر محفوط کرنے کے لئے کانگریس لائبریری واشنگٹن بھیج دی گئی تھیں.جبکہ باقی رہ جانے والی کتب غیر سرکاری ڈیلروں کے ہاتھ لگ گئی تھیں.
اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کے رکن اور مقبوضہ بیت المقدس،بابل جیوری ہیرٹیج سنٹر کے بانی مورڈیچائی بن پوراٹ نے اخبار کو بتایا کہ ”انہوں نے ان کتب کو چوروں سے خریدا ہے اوران کے ادارے نے ان کتب کی خریداری کے لئے قریباً پچیس ہزار ڈالرز ادا کئے ہیں.

بن پوراٹ نے شروع میں اپنا ایک نمائندہ عراق بھیجا جو براہ راست کتب اسرائیل بھیج دیتا تھا لیکن ایک مرتبہ امریکیوں اسے اس کی مشکوک سرگرمیوں پر پکڑلیا اورشپمنٹ کے ذریعے مزید کتب اسرائیل بھجوانے سے منع کردیا.جس کے بعد اس نے قیمتی کتب کی سمگلنگ شروع کردی.

انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام کے وقت عراق میں ایک لاکھ تیس ہزار یہودی آباد تھے.انیس سو باون تک ایک لاکھ تئیس ہزار سے ذیادہ یہودی عراق سے اسرائیل جابسےتھے .اس کے صرف بیس سال بعدعراق میں یہودیوں کی تعداد صرف پانچ سو رہ گئی. 1991ء کی خلیجی جنگ کے بعدمزید یہودی عراق چھوڑ گئے اورآج امریکا کی قیادت میں حملے اورصدام حکومت کے خاتمے کے بعد افراتفری اور طواف الملوکی کی وجہ سے محض دودرجن یہودی عراق میں رہ گئے ہیں.

مختصر لنک:

کاپی