پنج شنبه 01/می/2025

لبنان میں حماس کے ترجمان اسامہ حمدان کا انٹرویو

اتوار 29-جون-2008

فلسطینی مزاحمت کاروں کی ثابت قدمی نے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کیا- آج ہم نے طاقت کا توازن تبدیل کیا ہے اور اپنی شرطیں منوائی ہیں- حماس جنگ بندی کی خلاف ورزی میں پہل نہیں کریگی- جنگ بندی کے لیے اسرائیلیوں نے آٹھ ممالک سے رابطہ کیا-اسرائیلی پارلیمنٹ میں خطاب کے بعد صدر بش پر بھروسہ کرنا عبث ہے- حماس سیاسی پرورگرام پر یقین رکھتی ہے- ان خیالات کااظہار لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان اسامہ حمدان نے اسرائیل سے جنگ بندی کا معاہدہ طے پاجانے کے حوالے سے جزیرہ نیٹ سے انٹرویومیں کیا – انٹرویو کا متن زائرین کے پیش خدمت ہے –

 جنگ بندی کے معاہدے کی کیا تفصیلات ہیں؟ 

جواب :       غزہ کے خلاف فوجی کارروائی پر فلسطینی مزاحمتی جماعتوں کی ثابت قدمی سے اسرائیل پریشان ہے جس کے باعث وہ جنگ بندی کا معاہدہ طے کرنے پر مجبور ہوگیا ہے-جنگ بندی کے معاہدے کے حوالے سے حماس کا موقف واضح تھا‘ کوئی بھی معاہدہ قومی اتحاد کے ذریعے ہی طے پا سکتاہے اور معاہدہ ایسی شرائط پر ہوگا جس سے مسئلہ فلسطین بالخصوص مزاحمت کے اصولوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور وہ معاہدہ فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو- آج ہم نے تمام شرائط منوائی ہیں- سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ بندی ہمہ وقتی اور دوطرفہ ہے اور اس طرح کا معاہدہ پہلی دفعہ ہوا ہے- آج ہم نے طاقت کا توازن تبدیل کردیاہے اور دشمن ہم وقتی اور دوطرفہ جنگ  بندی کے معاہدے پرمجبور ہوا- دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی بھاری سیاسی قیمت ادا کی ہے- اسے دو سال سے جاری ناکہ بندی کے خاتمے پر مجبور ہوناپڑا-

غزہ کی شہ رگ رفح کراسنگ کے حوالے سے کیا طے پایا ہے ؟

 جواب :رفح سرحد کے حوالے سے ہمارے اور مصری بھائیوں کے درمیان طے پایا ہے کہ غزہ کی سرحدوں کی نگرانی یورپی مبصرین کریں گے جبکہ فلسطینی اتھارٹی اور حماس حکومت کے نمائندے بھی موجود ہوں گے- یہاں پر میں ایک اہم پوائنٹ کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں کہ ہم نے کوئی بھی اضافی شرط قبول کرنے سے انکار کیا ہے- مثلاً مصرسے اسلحہ کی اسمگلنگ کی روک تھام اور مغوی اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کو شرائط میں داخل کیے جانے کی کوششوں کو مسترد کردیا گیا- ہم نے کوئی بھی دستبرداری کے بغیر دشمن کے کمزور نکات سے فلسطینی مفادات حاصل کرنے کی پالیسی اپنائی- دشمن معاہدہ اوسلو کے بعد کمزور حالات سے گزرا ہے لیکن فلسطینی مذاکرات کاروں نے اس کمزور ی کا فائدہ نہیں اٹھایا اور اس کمزوری کو مسئلہ فلسطین اور عوام کے مفادات میں استعمال نہیں کیا- ہمیں تعجب ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ کمزور ہے اور فلسطینی اتھارٹی نے فائدہ نہیں اٹھایا- فلسطینی مذاکرات کار وں کی خود یہ مشکل ہے کہ اولمرٹ کے مقابلے کے لیے پتے نہیں رکھتی- وہ بغیر سوچے سمجھے ڈکٹیشن قبول کررہی ہے-

 جنگ بندی کے مستقبل کے حوالے سے آپ کاکیا تجزیہ ہے‘ یہ کامیاب رہے گی ؟

جواب :  ہم جنگ بندی اور اس کی شرائط کی پابندی کریں گے – وقت بتائے گا کہ اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی تو اس کی ابتداء اسرائیل ہی کی جانب سے ہوگی- اگر اس نے ایسا کیا تو نتائج کا ذمہ دار وہ ہوگا- ایہودادلمرٹ کے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں ہمارے اس نظریے کو تقویت حاصل ہوگی کہ اسرائیل کسی معاہدے یا اتفاق کا احترام نہیں کرتا- میں واضح طور پر کہنا چاہتاہوں کہ ہمیں اسرائیل پر اعتماد نہیں ہے لیکن میں یہ یقین دلاتاہوں کہ حماس کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ابتداء نہیں ہوگی- ہم معاہدے کی پابندی کریں گے- اگر دشمن نے کوئی خلاف ورزی نہ کی تو ہم بھی خلاف ورزی نہیں کریں گے –

  کیا حماس دیگر مزاحمتی جماعتوں پر سرپرست اور بالفاظ دیگر پولیس مین کا کردار اداکرے گی؟

جواب :      اسرائیل سے معاہدہ تمام مزاحمتی جماعتوں کے اتفاق سے طے پایا ہے- ہم کسی کو ہدایات دیئے بغیر فلسطینی مفادات کی حفاظت کے لیے تمام جماعتوں سے رابطہ رکھیں گے- پولیس مین کے کردار کو مسترد کرتے ہیں-

      جنگ بندی کا مطلب مزاحمت کا خاتمہ نہیں ہے- جنگ بندی دوطرفہ ہے – اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی تو ہمارے سامنے راستے کھلے ہیں- ہم پر کوئی دباؤ نہیں ہے- ہماری طرف سے معاہدے کی شقیں واضح ہیں – اصل مسئلہ اسرائیلیوں کا ہے- میں یہاں پر یہ بات بتانا چاہوں گا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اسرائیلیوں نے 8 ممالک سے رابطے کئے – انہوں نے سابق امریکی صدر جمی کارٹر‘یورپی ممالک اور ایک عرب ملک سے جنگ بندی کرانے کی درخواست کی- سب ممالک نے ہمارے سامنے جنگ بندی کی شرائط رکھیں -ہمارا جواب تھا کہ ہماری شرائط واضح ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی- ان تمام باتوں سے اسرائیل کی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہوتاہے-

فلسطینی باہمی مذاکرات کے حوالے سے سوال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی جانب سے غیر مشروط مذاکرات کی دعوت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ کیا یہ دعوت آپ کے لیے حیران کن نہیں ہے؟

جواب :سب سے پہلے تو میں ذکر کرنا چاہوں گا کہ محمود عباس نے غیر مشروط مذاکرات کی دعوت نہیں دی اور دوسری بات فلسطینی صدر کی جانب سے مذاکرات کا اعلان ہمارے لیے حیران کن نہیں ہے کیونکہ سینگل کی سرپرستی میں ہمارے درمیان بات چیت ہو رہی تھی‘ ہمارے خیال میں محمودعباس کو اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ صدر بش کے اسرائیلی پارلیمنٹ کے خطاب کے بعد قیام امن کے لیے ان پر بھروسہ کرناعبث ہے –

کیا  آپ صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے؟ آپ کا امیدوار براہ راست انتخاب میں حصہ لے گا یا پھر کسی آزاد شخصیت کی حمایت کی جائے گی؟

جواب :سب سے پہلے تو ہم سیاسی پروگرام پر یقین رکھتے ہیں- مڈٹرم الیکشن اور اس میں حصہ لینا قومی مسئلہ ہے- اس حوالے سے قومی مفاہمت کے ذریعے ہی فیصلہ کیا سکتاہے- ان لوگوں کی خام خیالی ہے کہ جو سوچتے ہیں کہ قومی مفاہمت کے بغیر انتخابات کا انعقاد ہوسکتاہے- انتخابات کے انعقاد کی صورت میں تمام امکانات موجود ہیں – کسی آزاد امیدوار کی حمایت کی جاسکتی ہے اور ہم کسی جماعت سے اتحاد بھی کرسکتے ہیں- لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جمہوریت کا امریکی معیار کا بل قبول نہیں ہے- 

یورپی ممالک سے حماس کے رابطوں کی حقیقت کیا ہے ؟ اور  پ کے کن ممالک سے رابطے ہوتے ہیں؟

جواب :حالیہ دنوں میں ہمارے ایک سے زائد یورپی مالک سے رابطے ہوئے ہیں-  ہماری 9یورپی ممالک جن میں 7یورپی یونین کے ممبر ہیں ‘ سے مذاکرا ت ہوئے ہیں- شروع میں تو ان ممالک کے رابطوں کا مقصد قیام امن کے معاہدے کی شرائط تسلیم کرنے کے لیے حماس پر دبائو ڈالناتھا- لیکن اب ان کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہے- وہ کسی حد تک حماس کے موقف کو سمجھنے لگے ہیں – یورپی مالک کے موقف میں یہ تبدیلی فلسطینی مزاحمت کی مرہون منت ہے- فلسطینی عوام نے قیام امن کے لیے مذاکرات کے ساتھ مزاحمت کے میدان کو خالی نہیں کیا- امریکی پالیسیوں کے باعث علاقہ شدید بحرانوں کا شکار ہے اور اب امریکی پالیسی فرانس ‘ سوئٹزرلینڈ اور ناروے سمیت دیگر متعدد یورپی ممالک کے مفادات پر اثرانداز ہو رہی ہے –

کیا شام اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات مزاحمت کو متاثر کریں گے ؟

جواب :      شام اور اسرائیل کے بالواسطہ مذاکرات کوئی نئی بات نہیں ہے – یہ 1990ں شروع ہوئے تھے اور اس میں گرمی سردی  آتی رہی ہے- ان مذاکرات کو مزاحمت کے لیے نقصان دہ قرار دینا خام خیالی ہے – داخلی اور خارجی سطح پر ہم نے بہت سے دبائو کا سامنا کیا ہے- یہ دباؤ ہم پر اثر انداز نہیں ہوسکا – اس کی دلیل2006ں ہونے والے انتخابات کے نتائج ہیں- دباؤ کا سلسلہ حماس کے خاتمے کے لیے شروع ہوا- اب تک شام کا جو موقف رہاہے اس سے ہمیں یقین ہے کہ شام کا اسرائیل سے کوئی معاہدہ فلسطینیوں کی قیمت پر نہیں ہوگا-

مختصر لنک:

کاپی