فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں سے رہائی پانے والے قیدیوں جن کی اکثریت پر فرد جرم بھی عائد نہ گئی اور نہ انہیں وکیل کی سہولت ملی- قیدیوں نے بتایا کہ انہیں مکے مارے جاتے، لاٹھیاں برسائی جاتیں، پلاسٹک پائپ سے پیٹا جاتا اور انہیں تکلیف دہ حالت میں کھڑا ہونے اور بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا –
برلن میں ہونے والی کانفرنس کے اختتام پر رقوم فراہم کرنے والے چالیس ممالک بشمول برطانیہ نے 121ملین پاؤنڈ کی امداد کا اعلان کیا- رقم اگلے تین برسوں میں فراہم کی جائے گی تاکہ فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورس کو مضبوط بنیادوں پر تشکیل دیا جاسکے اور مغربی کنارے میں نظام انصاف کو بہتر بنیادوں پر استوار کیا جاسکے- اس وعدہ شدہ رقم میں سے دو کروڑ ڈالر برطانیہ دے گا ،جبکہ برطانیہ سیکورٹی فورس کی تربیت کے لیے 27لاکھ ڈالر کی رقم اس سال الگ سے ادا کررہا ہے اور مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں ایک برطانوی بریگیڈئیر فلسطینی سیکورٹی فورس کو تربیت دے رہاہے – برطانیہ اگلے تین برسوں میں عدالتی انصاف ، جرائم کے خاتمے اور دیگر اصلاحات کے لیے پینتالیس لاکھ پاؤنڈ خرچ کرنے کا ارادہ رکھتاہے –
محمود عباس کی حکومت کے لیے مجموعی طور پر 14ارب پاؤنڈ کی رقم مختص کی گئی ہے ، محمود عباس سیکورٹی فورس کے سربراہ بھی ہیں- محمود عبا س کو دی جانے والی امداد کا مقصد یہ ہے کہ حماس کو تن تنہا کردیا جائے جو گزشتہ سال سے غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے- جن لوگوں کو حماس سے تعلق کی بناء پر گرفتار کیاگیا ہے ان کو ایک خصوصی سزا دی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ لوگ ٹانگیں کھول کر طویل وقت کے لیے کھڑے رہیں – نابلس کے ایک تاجر تینتالیس سالہ عمارا لمصری کی حلود المصری سے شادی ہوئی ہے اور وہ حماس کی جانب سے میونسپل اہلکار ہے- وہ گزشتہ مہینے سے نابلس کی الجنید جیل میں ہے – اس کے 13سالہ بیٹے کا کہناہے کہ میرے ابو 5دن سے قید میں ہیں-
نابلس میں اپنے گھر میں حجاب میں موجود خلودکا کہنا ہے کہ میرے شوہر کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے، دکھ یہ ہے کہ وہ فلسطینی جیل میں ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا جرم کیا ہے – اس کو صرف ایک بار اپنے شوہر سے ملنے کی اجازت دی گئی – خلود کو اس کے شوہر نے بتایا کہ میری دونوں ٹانگوں میں رسہ باندھ کر مجھے چھت سے لٹکا دیا گیا – اس کے وکیل کا کہناہے کہ اس کے بازو ،اس کی ٹانگیں اور اس کی کلائیاں سوجی ہوئی ہیں جو اس پر ہونے والے تشدد کا ثبوت ہیں-
حال ہی میں رہائی پانے والے ایک اور فلسطینی سے نابلس کے قریب ایک عمارت کی تیسری منزل میں ایک انٹرویو کیاگیا ، اس نے فلسطینی اتھارٹی کی جیل میں ایسی سزائوں کی تصدیق کی ، اس کی عمر پچاس برس ہے – قانون کے ایک طالب علم نے جس کی عمر 29سال ہے ، اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ مجھ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ میرے پاس راکٹ ہیں ،انہوں نے میرے ہاتھ میری کمر سے باندھ دیئے اور رسی کو پائٹ سے باندھ دیا گیا ، وہ ہر 20سیکنڈ کے بعد میری رسی کو مزید جکڑتے اور مجھے لگتا کہ میں ختم ہوجائوں گا-
اس پر کوئی الزام عائد کئے بغیر اسے رہا کردیاگیا، سیکورٹی افسران نے اس سے کہاکہ تم ثابت قدم رہے ہو، اس لیے تمہیں چھوڑ رہے ہیں، نابلس میں پیش قدم سیکورٹی کے سربراہ اکرم رجوب نے کہاکہ یہ قیدی ہیں اور ہم ان قیدیوں کو چاکلیٹ اور بھوکی نہیں دے سکتے – تاہم ان پر شدید تشدد نہیں کرتے- برطانوی فارن فس نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کی اشاعت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے-
فارن فس کے ایک ترجمان نے کہاکہ برطانیہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ہے اور ہم فلسطین کے سیکورٹی نظام کو غلطیوں سے پاک کرناچاہتے ہیں- برطانوی حکام نے بتایا ہے کہ فلسطین کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورس کو دی جائے گی اور یہ سیکورٹی فورس اپنے مخالفین کے ساتھ خصوصاً حماس کے ساتھ بدترین رویے کے لیے بدنام ہے – جنوری 2006ء میں حماس کو انتخابات میں کامیابی ملی تھی، مغرب نے اس کامیابی کو پسند نہیں کیا کیونکہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے یا مزاحمت کاراستہ ترک کرنے سے انکار کردیاتھا-
اس وقت غزہ پر حماس کا کنٹرول ہے جبکہ محمود عباس نے اپنی پارٹی کے عہدیداران نے منی ایمرجنسی حکومت مغربی کنارے میں قائم کررکھی ہے- فلسطینی اتھارٹی کو فنڈ دینے والے ادارے ڈیپارٹمنٹ برائے عالمی ترقیات کے ترجمان نے کہاکہ یہ رقم مغربی کنارے بھیجی جائے گی تاہم یہ رقم خرابیوں کے دور کرنے پر بھی خرچ کی جائے گی- انہوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ فلسطینی پولیس زیادہ ذمہ دار ی کا مظاہرہ کرے – ہیومن رائٹس واچ نے برلن کا نفرنس کے شرکاء کو تجویز دی تھی کہ ایسا سسٹم متعارف کرایا جائے جس سے یہ رقم تشدد اور بنیادی آزاد یوں کے سلب کرنے والوں کے خلاف استعمال ہو-