اسرائیل میں یہودی عرب شہریوں سے زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں اور ان کے ہاں بچوں کی شرح اموات بھی کم ہے .یہ بات یورپی یونین کے فنڈز سے چلنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی بدھ کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہی گئی ہے.
مصالحتی کوششوں کے فروغ کے لئے کام کرنے والے آزاد گروپ سکوئے نے رپورٹ میں کہا ہے کہ یہودیوں اور عربوں کے درمیان طویل عمری اور بچوں کی شرح اموات سمیت معیار زندگی میں بھی نمایاں فرق ہے جو اسرائیل کی صہیونی اور عرب شہروں کو فنڈز مختص کرتے وقت امتیازی پالیسیوں کا نتیجہ ہے.
سکوئے عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی مواقع کے ہیں.
”اگرچہ اسرائیلی حکومت یہ اعلان کرتی رہتی ہے کہ اس نے اپنے تمام شہریوں،عربوں اور صہیونیوں کے درمیان مساوات کے فروغ عزم کر رکھا ہے لیکن زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے برابری کے دعوے محض نظریے تک ہی محدود ہیں.”سکوئے تنظیم کے ترجمان نسیم دیوک کا کہنا تھا.
اسرائیل کے زیادہ تر عرب شہری ان فلسطینیوں کی آل اولاد ہیں جو 1948ء میں صہیونی ریاست کے قیام کے وقت اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں رہ گئے تھے جبکہ یہودیوں کی غاصبانہ کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں ہزاروں فلسطینی اپنا گھربار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورکر دئیےگئے تھے یا پھر انہیں صہیونیوں نے ان کے گھروں سے نکال باہر کیا تھا.
اس وقت اسرائیل میں رہ جانے والے عربوں کی آبادی صہیونی ریاست کی کل آبادی کا بیس فی صد ہے.ستتر صفحات پر محیط رپورٹ میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان متوقع عمر اور شرح پیدائش میں بہت زیادہ فرق پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے.
رپورٹ کے مطابق یہودی مرد اوسطاً78.4سال عمر پاتے ہیں جبکہ عرب مردوں کی اوسطاًعمر ان سے چار سال کم یعنی74.9 سال ہوتی ہے.اسی طرح کا فرق دونوں گروپوں کی عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے. یہودی عورتوں کی متوقع عمر اوسطاً82.4سال جبکہ عرب خواتین کی عمر 78.5 سال ہوتی ہے.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عربوں کے ہاں بچوں کی شرح اموات فی ہزار 4.8 فی صد ہے یہودیوں میں یہ شرح 3.6 فی صد ہے.اسرائیل میں رہنے والے عربوں میں غربت کی شرح بھی یہودیوں کی بہ نسبت زیادہ ہے.پچاس فی صد عرب شہری غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ صرف15.7 فی صد یہودی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں.