اسرائیل ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں غیر یہودیوں کو بنیادی حیوان سمجھا جاتا ہے یا ان کو ایسی مخلوق سمجھا جاتا ہے کہ جو کم تر درجے کے انسان ہیں-
غیر یہودیوں کو اس لیے حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا بھرم توڑنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں- یہ تبادلہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اسرائیل کو کم از کم نفسیاتی طور پر ضرور سمجھنا ہوگا- اس معاہدے سے واضح ہوگیا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے اسرائیل کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے یہاں تک کہ اسے لبنان کے گوریلا لیڈر سمیر قنطار کو بھی رہا کرنا پڑا- اسرائیل نے سمیر قنطار کو بڑھا چڑھا کر دہشت گرد لیڈر کے طور پر پیش کیا گویا کہ ہزاروں یہودی جن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں پاک صاف ہیں-
اگر اسرائیل ایک عام ریاست ہوتی اور اس کے عوام عام انسان ہوتے تو انہوں نے یقینا اپنے ہمسایوں کے ساتھ انصاف پر مبنی رویہ اختیار کرنا تھا تب ’’لوگوں‘‘اور ’’لوگوں‘‘ ’’یہودیوں‘‘ اور ’’غیر یہودیوں‘‘ میں فرق نہیں سمجھا جاتا-
اسی قسم کے طرز عمل سے ہزاروں یہودیوں اور ہزاروں عربوں کی زندگی بچائی جاسکتی تھی اور اس علاقے کے لوگوں کو ظلم و جبر اور تشدد سے بچایا جاسکتا تھا-لیکن اس صورت میں صہیونیت کو اپنا چہرہ، ذہن اور دل تبدیل کرنا پڑتا، کیونکہ صہیونیت ایک ایسی تحریک ہے کہ جس کے اندر انسان دوست اور اخلاقیات کی کوئی بھی رمق باقی نہیں ہے- حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل نے جو تازہ ترین معاہدہ کیا ہے- اس کے بارے میں چند آراء یہاں درج کی جارہی ہیں-
شمعون پیریز جو 1996ء میں قانا کے قتل عام کے مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے اور جو اسرائیل کا موجودہ صدر ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ قاتل آزاد پھریں لیکن ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جن فوجیوں کو ہم نے اپنے وطن کے دفاع کے لیے بھیجا ہے ان کو واپس لائیں- پیریز نے مزید کہا تھا کہ ’’میرا دل دکھی ہے کہ میں قنطار کو معافی دے رہا ہوں-‘‘ انہوں نے کہا کہ میرے اقدام سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ میں قنطار کو معاف کرچکا ہوں-
1979ء میں سمیر قنطار کے اقدام کے نتیجے میں تین اسرائیلی ان میں ایک میرا ملٹری سپاہی ایک فرد اور اس کی بیٹی جاں بحق ہوئے تھے، اس کارروائی میں قنطار کے ساتھی بھی جاں بحق ہوئے تھے- قنطار نے اسرائیل جاکر مطالبہ نہیں کیا کہ عرب قیدیوں کو رہا کیا جائے-آج ہمارے سامنے بہت سارے سوالات ہیں لیکن اسرائیلی ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے تیار نہیں ہیں- شمعون پیریز نے زیادہ افراد ہلاک کیے ہیں یا سمیر قنطار نے؟-
معصوم بچوں کے قتل کا خون کس کے ہاتھ پر زیادہ ہے شمعون پیریز یا سمیر قنطار معصوم لوگوں پر موت اور مصیبتیں زیادہ شمعون پیریز نے نازل کی تھیں یا سمیر قنطار نے؟-اگر ایمانداری سے کام لیں تو معلوم ہوگا کہ شمعون پیریز ایریل شیرون اور ان کے دیگر ساتھیوں نے جس قدر خون بہایا ہے انہیں اپنے گناہوں پر معافی مانگنا چاہیے- لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجرموں کو اپنی سزا کے بارے میں کوئی فکر نہیں-
روزنامہ ’’ہارٹز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک اسرائیلی عورت نے حزب اللہ پر تنقید کی کہ حزب اللہ نے ابھی تک اس کے دو بیٹوں کے بارے میں یہی بتایا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں ہیں- اس نے کہا کہ یہ اسرائیل کے لیے قابل شرم ہے کہ ہم اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک اپنے بچوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے-
میں مذکورہ اسرائیلی خاتون سے اظہار ہمدردی کرتا ہوں اس کے ساتھ ساتھ میں ان سے یہ جاننا چاہوں گا کہ کیا اسرائیلی کی زندگی غیر اسرائیل کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے میں اس اسرائیل عورت سے یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ ان فلسطینی عورتوں کو کیا جواب دیا جائے جن کے عزیز و اقارب اسرائیل جیلوں میں ہیں اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ کب آزادی ملے گی، غزہ کے ان لوگوں کو کیا جواب دیا جائے جو 1967ء سے اسرائیلی قید میں ہیں-
میں جنگی قیدیوں اور ان لوگوں کے بارے میں بات کررہا ہوں کہ جو اسرائیلی قید میں ہیں کیا ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کے عزیز و اقارب ان کے زندہ مردہ ہونے کے بارے میں جان سکیں-حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے حالیہ معاہدے سے یہ ثابت ہے کہ اسرائیل Real Politik (طاقت کی زبان) سمجھتا ہے جو کہ اخلاقی لحاظ سے غلط اور نارواء ہے- دس ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں ہیں کیا ان کو رہا کرانے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اسرائیلیوں کو قید کرلیا جائے؟-