اس سارے عمل کے دوران اسرائیلی راہنما ذرائع ابلاغ اور رائے کو تشکیل دینے والے اپنی ہی تعریفیں کرتے رہے جبکہ دوسری طرف کو قابل نفرت، غیر مہذب اور ادنیٰ تفاوت کے علمبردار قرار دیتے رہے۔
اسرائیل کا یہ کردار اس کی خاص علامت ہے۔ اسرائیل کا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے کہ جہاں دہشت گردی، تشدد، نسلی تطہیر اور تاریخ کے غلط حوالے بالکل عام ہیں۔
اسرائیل کے غیر قانونی وجود کو، قانونی اور برحق قرار دینے کے لیے سب سے پہلے صہیونی سامنے آتے ہیں اور قیام اسرائیل سے لے کر آج تک کئے جانے والے تمام اقدامات کو قانونی اور برحق قرار دینے لگتے ہیں۔
اسرائیل کی حکومت کی جانب سے جس قسم کے بیانات سامنے آئے ہیں اس سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ بچے اور معصوم شہری جو اسرائیلی حملوں سے ہلاک نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے خود ہی موت کو گلے لگا لیا تھا۔ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ نہیں کیا بلکہ منتخب قوم، کو یہ حق حاصل ہے کہ دنیا بھر میں جس کے ساتھ جو چاہے کرے۔
یہودیوں نے یہ غلطیاں "جان بوجھ ” کر نہیں کیں بلکہ مجرم خود ہی سامنے آ گئے اور یہودیوں سے "غلطی” کا ارتکاب ہوا۔ فلسطینی ظلم و زیادتی کا مرتکب، اپنےگھر کی تباہی کا خود ذمہ دا ر ہے۔ اپنے بچوں کی ہلاکت کا خود ذمہ دار ہے اور اپنے کھیت کھلیان کی تباہی کا خود ذمہ دار ہے۔ اسرائیلی بلڈوزر، فلسطینی کھیتوں کو اجاڑ دیتے ہیں اس کی ذمہ داری بھی فلسطینیوں پر عائد ہوتی ہے۔
اسی طرح فلسطینیوں کی عظیم الشان تباہی ”نکبہ “کی ذمہ داری بھی فلسطینیوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ”منتخب قوم “ کے ساتھ بھرپور تعاون سے انکار کردیا تھا۔ اگر فلسطینی آج کی مسلط اسرائیلی حکومت سے تعاون نہ کریں گے تو ان پر ایک اور تباہی”نکبہ” مسلط کر دی جائے گی۔ اسرائیل کے لیڈر اور عوام جس ذہن کے مالک ہیں وہ نازی قوم کے ذہن کی عکاس ہیں۔ اسرائیلی اس سے خوب آگاہ ہیں لیکن تمام قاتلوں، چوروں اور جھوٹوں کی طرح وہ سچائی کا اعتراف نہیں کرتے۔
وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے ورنہ وہ کس طرح ثابت کریں گے کہ جس زمین پر وہ رہ رہے ہیں ان کی نہیں ہے اور جس علاقے میں انہوں نے گھر بنا کر رکھے ہیں ان کا نہیں ہے۔ اہل مغرب اور شمالی امریکہ میں جو لوگ یہودی پراپیگنڈے سے متاثر ہیں، انہیں
جان لینا چاہیے کہ صہیونیت کے عملی اقدامات تمام مذاہب کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔
حال ہی میں صہیونیوں نے "محبت” کی جس تقافت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے چند نمونے پیش ہیں ۔
کرس ہیجزایک اہم صحافی ہے امریکی اور مشرقی وسطی کی سیاست کے بارے میں مضامین لکھتا رہتا ہے۔ اس نے نیویارک ٹائمز کے لیے پندرہ برس کام کیا۔ علاوہ ازیں کرسچین سائنس مانیٹر اور ڈلاس مارننگ نیوز میں بھی اس کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی کتاب War is a force that gives meaningہے جس میں اس نے اسرائیلی تسلط کے خلاف فلسطینی جدوجہد کے دوسرے دور کے دوران حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور وہاں کے حالات کو اپنی کتاب میں شامل کیا۔
ہیجز تحریر کرتاہے کہ "اسرائیلی سمت سے لاؤڈ سپیکر پر اشتعال انگیز اعلان ہوتاہے “خان یونس کے کتے کہاں چلے گئے ہیں ، ادھر آؤ ! اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے اعلانات لڑکے اور ان کی مائیں مشتعل ہوجاتی ہیں۔ لڑکے اپنے گھروں سے نکل آتے ہیں اور جس جیب سے یہ اعلان ہو رہا ہے اس پر پتھر پھینکنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے جواب میں M-16جن پر سائلنسر لگا ہوتاہے، سے گولیاں برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہیجز نے دیکھا کہ پتھر برسانے والے بچےگولیوں سے زخمی کر دیئے گئے ۔ ہسپتال میں جا کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کچھ بچوں کی انتڑیاں باہر نکلی پڑی ہیں، کچھ کے بازو اور ٹانگیں اڑ چکے ہیں ۔
ہاربر میگزین (The Nation March-11-2002)کے لیے ہیجز تحریر کرتاہے "کچھ دیگر تنازعات میں شکار بننے والے بچے میں نے دیکھے ہیں۔ گوئٹے مالا اور اہل سلواڈور میں خونی دستوں کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے بچے اورالجزائر میں خون میں نہانے والے بچے اور ان کی مائیں اور سرائیوو میں نقاب پوش سربوں کی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے بچے لیکن میں نے کہیں بھی نہیں دیکھا کہ بچوں کو اس طرح جال میں پھنسایا جائے جس طرح اسرائیلی پھنساتے ہیں اور بعد میں ان کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔
محبت کے اظہار کی ایک اور داستان بھی سن لیجئے "نومبر 2001ء میں اسرائیلی فوج کے ایک ذیلی یونٹ نے جنوبی غزہ کی پٹی کے خان یونس کے عبداللہ صیام پرائمری سکول کی ریت میں بارودی سرنگ نصب کر دی۔ چھ گھنٹوں کے بعد جب بچے سکول پہنچے تو بارودی سرنگ پھٹ گئی۔ پانچ بچوں کی بوٹیاں بوٹیاں ہوگئیں، ان میں سب سے کم عمر بچہ چھ سال کا تھا، یہ سارے بچے ایک ہی خاندان کے تھے۔ اکرم نسیم اصطل کی عمر چھ سال تھی، اس کا بھائی محمد تیرہ سال کا تھا، عمر ادریس اصطل کی عمر بارہ سال تھی اور اس کا بھائی انس دس سال کا تھا اور ان کا چچاز اد بھائی محمد سلطان اصطل بارہ سال کا تھا، ان کے جسموں کے اس طرح پرخچے اڑے کہ ان کی شناخت کرنا مشکل تھی ۔ کچھ بچوں کی شناخت صرف ان کے بیگوں سے ہو رہی تھی،جن پر خون جم گیا تھا اور جو ان کے گلوں میں لٹکے ہوئے تھے۔
سال 2004ء میں غزہ میں اسرائیلی قابض فوج کے ایک فوجی کیپٹن نے سکول کی ایک لڑکی ایمان الحمص کو گولی مار دی جو اپنے سکول جا رہی تھی۔ اس فوجی کو یقینی طور پر علم نہیں تھا کہ یہ لڑکی مرچکی ہے یا نہیں، وہ فوجی آگے بڑھا اس لڑکی کو پچیس گولیاں ماریں۔ یہاں تک کہ اس کی گولیوں کا میگزین خالی ہوگیا ۔ اس نے لڑکی کی موت کا یقین کرلیا، اسرائیلی فوج نے فوجیوں کو یہ ہدایت جاری کر رکھی ہے کہ جسے مارا جائے اس کو دیکھ لیا کہ وہ جاں بحق ہوا ہے یا نہیں۔
شاید قارئین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس اسرائیلی فوجی کو اس خوفناک جرم کی وجہ سے گرفتار کر لیاگیا ہو گا۔ اس کے برعکس ہوا۔ اس فوجی پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا بلکہ اس کو ہزاروں ڈالر کی رقم بھی مل گئی کیونکہ ذرائع ابلاغ میں اس کے بارے میں خبریں آنے سے اس کو صدمہ پہنچا تھا۔یہ صرف اسرائیلی فوج کے عام فوجیوں اور افسروں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ صہیونی مذہبی پیشوا (ربی) باقاعدگی کے ساتھ اعلانات شائع کرتے ہیں جن میں ترغیب دی جاتی ہے کہ غیر یہودی بچوں کو قتل کریں اور کسی قسم کے نقصان یا مواخذے کی پرواہ نہ کریں ۔
مئی 2007ء میں اسرائیلی قابض فوجیوں نے ان دو بچوں کو غزہ میں ہلاک کرڈالا کہ جو زمین سے لوہے کے ٹکڑے چن رہے تھے تا کہ انہیں فروخت کر کے اپنےگھر والوں کے لیے روٹی خرید سکیں، اسرائیلی فوجیوں نے انہیں گولیاں مار کر زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ اسرائیل کے سابق چیف ربی، ماردی خے ال یاہو نے اسرائیلی حکومت سے درخواست کی تھی کہ غزہ کی پٹی کے پر ہجوم مراکز میں خفیہ طور پر بم رکھنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔الیاہو نے دلیل دی تھی کہ دنیا میں گنجان ترین آبادی والے علاقے پر حملہ سے اسرائیلی فوجیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
اگر سوآدمی ہلاک کرنے سے وہ باز نہ آئیں تو ہمیں ہزار آدمیوں کو ہلاک کرناچاہیے اور اگر ہزار آدمیوں کو ہلاک کرنے کے باوجود بھی وہ سکون سے نہ بیٹھیں تو ہمیں دس ہزار افراد کو ہلاک کردینا چاہیے۔ لیکن اگر وہ باز نہ آئیں تو ہمیں ایک لاکھ افراد کو مار دینا چاہیے اور اس کے بعد دس لاکھ ماردینے چاہئیں، یہاں تک کہ وہ رک جائیں۔ الیاہو سے پہلے، یہودیوں کی مذہبی کتاب "تالمود” کے ایک ماہر نے اسرائیلی قابض حکومت سے کہا تھا کہ اگر اسرائیلی فوجیوں کی زندگی بچانا مقصود ہو تو فلسطینی بچوں کو ماردینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اسرائیلیوں میں جو روح کار فرما ہے، یہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ اسرائیلی فوجی، فلسطینی سکول کے بچوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں جہاں قریبی یہودی بستیوں میں یہودی بچے ان پر تشدد کرتے اور وہ "تربیت” حاصل کرتے ہیں، یہی سوچ ہے کہ اسرائیلی فوجی محروم طبقات کے نمائندے، فلسطینی مزدوروں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کا پیشاب پئیں اور وہ ترانہ پڑھیں جن میں اسرائیلی فوجیوں کی طویل زندگی کے لیے دعا کی گئی ہو ۔
یہاں چند ایک مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ لیکن ایسی ہزاروں مثالیں موجود جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج، پولیس، یہودی آباد کار اور عوام کس انتہا تک پہنچ سکتے ہیں۔ سال 2001ء میں ایک سابق وزیر تعلیم نے روزنامہ "معاریف”میں تحریر کیا تھا کہ ہم ( اسرائیلی ) ایک وحشت ناک قوم بن چکے ہیں۔ اسرائیل کسی مرض کا شکار ہے، جرم کرنے اور تردید کرنے کے مرض کا؟