انہوں نے اسرائیل کے قیام کو ’’معجزہ‘‘ قرار دیا اور اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیا کہ اس موقعے پر یہاں کے مقامی مسیحی اور مسلمان باشندوں کو جبراً نکال باہر کیا گیا اور انہیں اطراف و اکناف عالم میں منتشر کردیاگیا- امریکہ کے صدارتی امیدوار نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہاکہ ’’میں اسرائیل کے لیے غیر معمولی امداد و حمایت کے اعلان کے لیے یہاں آیا ہوں‘‘-
اوباما کے یہ الفاظ بھی پریس میں رپورٹ کئے گئے- ’’اگر کوئی میرے گھر میں راکٹ پھینکے جہاں میری دو بیٹیاں سوئی ہوئی ہوں، میں اس کو روکنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھاؤں گا کہ جو میری طاقت میں ہوگا اور میں اسرائیل سے بھی اس کی امید کرتا ہوں- انہوں نے غزہ کی پٹی کے خلاف اسرائیل کی چیرہ دستیوں اور جبرو ستم کی مہم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا، اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا کہ ایک سال کے جاری محاصرے سے پندرہ لاکھ فلسطینی انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کررہے ہیں، درجنوں کے حساب سے جاں بحق ہوچکے ہیں-
ہزاروں معذور ہوچکے ہیں، ان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی حکومت منتخب کی ہے جو اسرائیل کو پسند نہیں ہے- جیسا کہ امکان بھی تھا، اوباما نے ایران پر شدید تنقید کی اور کہاکہ ایران کے جوہری اسلحہ تیار کرلینے سے ساری صورت حال الٹ ہوجائے گی اور امن عالم کو خطرہ لاحق ہوجائے گا- انہوں نے اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیا کہ اسرائیل کے پاس تین سو نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں، گویا اس حقیقت کی طرف معمولی سا بھی اشارہ کردیا گیا تو اس سے بھونچال آ جائے گا-
مشرق وسطی کے حالات سے اوباما ناواقف ہے،وہ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کی بدفطرت سے بھی خوب آگاہ ہے اور فلسطینیوں پر جو ظلم و ستم اور چیرہ دستیاں جاری ہیں، ان سے بھی آگاہ ہے- وہ اچھی طرح جانتاہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ انصاف پر مبنی قیام امن، اسرائیلیوں کے ایجنڈے کا خری نکتہ ہوگا، جس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ مغربی کنارے بھی اور مقبوضہ عرب مشرقی بیت المقدس میں نئی آبادکاریوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری و ساری ہے- اوباما امریکی سیاسیات سے بھی خوب آگاہ ہے کہ جہاں سیاسی مصلحتیں ہمیشہ غائب رہتی ہیں اور اخلاقی رویے کو ہمیشہ دبا کررکھا جاتاہے-
وہ جانتاہے کہ امریکہ میں ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کے تقریباً کنٹرول کے سبب اس کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں، وہ اپنے ضمیر اور اپنے اخلاق کی بناء پر بات کرتے، اس صورت میں وہ انتخابات میں ہار جائے گا- دوسرا راستہ یہ ہے کہ بڑی مہارت سے سیاسی عصمت دری کی مہم کا حصہ بنا رہے اور کامیابی حاصل کرلے، محسوس ہوتاہے کہ اوباما نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا ہے –
امریکہ مشرق وسطی دوجنگوں سے براہ راست منسلک ہے اور اوباما کی جانب سے اسرئیل کا دورہ کرنے کا واحد مقصدیہ ہے کہ بش انتظامیہ ایران پر ایک تیسری جنگ مسلط کردے- صدیروٹ کے یہودیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار مطلوب نہیں ہے بلکہ امریکی عوام تک یہ پیغام پہنچانا مقصود ہے کہ وہ مشر ق وسطی میں قیام امن کے لے یہودیوں کی حمایت رکھتاہے- اس بات میں سچائی ہے لیکن یہ سچائی جزوی ہے-
امریکہ میں ہسپانوی ووٹروں کی بڑی تعداد ، یہودی ووٹروں سے زائد ہے لیکن اوباما نے میکسیکو کا اس طرح دورہ نہیں جس طرح کا دورہ اسرائیل کا کیا- اسی طرح جس قدر امریکہ میں یہودیوں کے ووٹ ہیں- اسی قدر ووٹ مسلمانوں کے بھی ہیں جو یہودیوں کے برخلاف اوباما کو ووٹ نہیں دیں گے- کیونکہ بش انتظامیہ کا رویہ وہ دیکھ چکے ہیں- خصوصاً انہوں نے امریکی مسلمانوں کے خلاف جو مہم چلائی رکھی، اس سے سب آگاہ ہیں- یہ تکلیف دہ منظر ہے کہ ہر وہ چیز جو اسلامی نظر آئے- اوباما نے اس سے دور رہنے کا عندیہ دیا ہے- اس نے اپنی حمایتی دو مسلم خواتین کے ساتھ تصویر بنوانے سے انکار کردیا، وہ اپنے ماضی کو بھی فراموش کئے رہا اور اس حقیقت کو بھی بھول گیا کہ اسلام نے ایک وسیع تہذیب اور ثقافت چھوڑی ہے-
انہیں وجوہات سے اوباما نے حرم الشریف کا دورہ نہیں کیا جسے دنیا کی انتہائی اہم عمارتوں میں سے ایک عمارت تصور کیا جاتاہے ، اس نے دورہ اس لیے نہیں کیا کہ کہیں کسی مسلم مقام پر احترام کااظہار نہ کرنا پڑے یا کسی مسلمان عالم دین سے ہاتھ نہ ملانا پڑ جائے – اس طرح امریکہ میں اس کے سیاسی مخالفین کو امریکہ میں موقع مل جائے گاکہ وہ اعلان کریں کہ ’’حقیقت میں اوباما اوسامہ بن لادن کا پیروکار ہے ‘‘میں یہ جانتاہوں کہ امریکہ میں شدت پسند یہودی قیادت اوباما پر یقین نہیں رکھتی کیونکہ انہیں اس کے لہجے میں ایسا ایسی حمک ملتی ہے کہ جویہودیوں سے احکامات تسلیم کرنے سے انکار کردے –
یہی وجہ ہے کہ اسے کوئی موقع نہیں دیا جائے ، چاہے وہ کس قدر یقین دہانیاں کرائے ، اس لیے یہودیوں کا موقف دوغلے پن پر مبنی نظر آ رہا ہے- لیکن اسرائیل نواز یہودی لابی کھلم کھلا سینیٹر مک کین کی حمایت کا اعلان کیوں نہیں کرتی جو دل و جان کے ساتھ اسرائیل کا ساتھی ہے – اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوفزدہ ہیں کہ اوباما نے انتخابات جیت لیے تو وہ وائٹ ہائوس کے نئے حکمران کی حمایت سے محروم ہوجائیں گے اوریہ اسرائیل کے لیے بہت برا ہوگا – ان کا اعلان یہ ہے کہ ’’ہم اس کالے کو یہ اجازت نہ دیں گے کہ ہمیں کمزور کردے یا ہمارے خلاف کوئی سازش کرسکے-
امریکی صہیونی اور ان کی طاقتور لابی جو امریکی سیاسی اور امریکی پالیسیوں کو موثر طور پر کنٹرول کرتی ہے ، اسے اوباماکا لب و لہجہ پسند ہے لیکن انہیں اوباما کے دل اور دماغ پر نہیں ہے- اوباما اس میں کامیاب رہا ہے کہ وہ اپنے دل اور اپنے لہجے میں فرق کو چھپائے رکھے – یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے – یہ تصور کرلیتے ہیں کہ اوباما امریکہ کا نیاصدر بن رہاہے ، اس کی وائٹ ہائوس میں مد جارج بش کی پالیسیوں کا تسلسل ہوگی – اسرائیل کے سابق وزیراعظم سے یہ جملہ منسوب کیا جاتاہے کہ ’’ہم یہودی ، امریکہ کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اس سے آگاہ ہیں-