اسیران کے امور کے وزیر ڈاکٹر احمد شویدہ نے اخباری بیان میں کہاہے کہ قابض حکومت کی فلسطینی شہریوں کوگرفتار کرنے کی مہم جاری ہے- اس مہم میں خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں بلکہ اسرائیلی انتظامیہ فلسطینی معاشرے کی بنیاد پر ضرب لگانے کے لیے رواں سال خواتین کو گرفتار کرنے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے- خواتین کو گرفتار کرنے کا مقصد فلسطینی عوام کے حوصلے کو پست کرناہے کیونکہ قابض حکومت جانتی ہے کہ فلسطینی معاشرے میں خاتون کی گرفتاری حساس معاملہ ہے- فلسطینی وزیر نے مزید کہاکہ اسرائیلی حکومت اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام ہوچکی ہے-
خواتین کو گرفتار کرنے کی پالیسی کارگرثابت نہیں ہوئی بلکہ ہماری خواتین نے حوصلے، ثابت قدمی اور بہادری کی اعلی مثالیں قائم کردیں ہیں- انہوں نے جیلوں اور قیدخانوں کو علم اور ثقافت کے نور سے منور کردیا- جیل سے رہائی پانے والی خاتون زیادہ باشعور، اپنے اصولوں کی زیادہ پابنداور اپنے حقوق کے لیے زیادہ جدوجہد کرنے والی بن گئی ہے- حالانکہ انہیں جیلوں میں ادنی سے ادنی حقوق سے محروم کررکھاگیا-
فلسطینی وزارت برائے امور اسیران کے میڈیا ایڈوائزرریاض اشقر کے مطابق 2007ء کے مقابلے میں 2008ء میں فلسطینی اسیرات کے تناسب میں 25فیصد اضافہ ہوا- رواں سال کے شروع سے اب تک 26خواتین کو گرفتار کیاگیا- سب سے زیادہ نابلس سے گرفتاریاں ہوئیں جبکہ بیت لحم،الخلیل اور رام اللہ سے چار چار، جنین سے تین اور بیت المقدس سے ایک خاتون کو گرفتار کیاگیا- اسیرات میں فلسطینی قانون ساز اسمبلی کی رکن منی منصور بھی شامل ہیں-
منی منصور دوسری خاتون رکن اسمبلی ہیں جنہیں گرفتار کیاگیاہے- اس سے قبل فلسطینی خاتون رکن اسمبلی مریم صالح کو گرفتار کیاگیاتھا- انہیں7ماہ تک قید میں رکھنے کے بعد رہا کردیاگیا- دیگر اہم اسیرات میں نابلس کی ڈپٹی میئر خلود مصری،خواتین یونین کی ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن ام حسنین عموری، رام اللہ کی کونسلر قریہ شقبہ شامل ہیں- قریہ شقبہ کو عمرہ کی ادائیگی سے واپسی کے موقع پر کرامہ کراسنگ پر گرفتار کیا گیا- اسیرات میں تین بچیاں بھی شامل ہیں جن کی عمریں 18سال سے کم ہیں جبکہ 3اسیرات یونیورسٹی کی طالبات ہیں –
اسرائیلی جیلوں میں اس وقت کل 95خواتین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہی ہیں، جنہیں بارہ مختلف جیلوں میں رکھاگیا ہے- سب سے زیادہ اسیرات ہشارون جیل میں ہیں جہاں پر 41فلسطینی خواتین پس دیوار زنداں ہیں- ان اسیرات میں پانچ ایسی بچیاں بھی ہیں جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق سن بلوغت کو نہیں پہنچی-
اسیرات کے ساتھ ان کے شیر خوار بچے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں-
غزہ کے جبالیہ علاقے سے تعلق رکھنے والی اسیرہ فاطمہ یونس زق کے ہاں ساڑھے چھ ماہ قبل جیل میں ہی بچے کی پیدائش ہوئی جس کا نام یوسف رکھاگیا جبکہ خولہ زیتاوی کو گرفتارکیاگیاتو وہ اپنے پیچھے شیر خوار بچہ چھوڑ کر آئیں بعد میں جیل انتظامیہ نے خولہ زیتاوی کو اپنے ساتھ جیل میں بچہ رکھنے کی اجازت دے دی –
رپورٹ کے مطابق 3اسیرات انفرادی قیدکی سزا کاٹ رہی ہیں، بعض اسیرات مختلف بیماریوں کا شکار ہیں لیکن انہیں علاج معالجے کی مناسب سہولت میسرنہیں ہے- جیل میں لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے-
ایک اسیرہ کو پریشن کی ضرورت ہے لیکن جیل انتظامیہ اس کے علاج میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جس سے اس کی زندگی کو خطرہ ہے- ایک مریضہ خون کی کمی کا شکار ہے- اس کا وزن خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے-
جیل میں مناسب صفائی نہ ہونے کے باعث اسیرات متعدد جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہیں- فلسطینی وزیر برائے امور اسیران نے عورتوں کے حقوق کے علمبردار بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی خاتون کے حقوق کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور خواتین کے خلاف تشدد اور گرفتاریوں کی کارروائیاں ختم کرائیں- قابض اسرائیلی حکومت پر خواتین بالخصوص مریض اور ایسی خواتین کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جائے جو اپنے پیچھے بچے چھوڑ کر آئی ہیں اور ان کا کوئی پرورش کرنے والا نہیں ہے-