اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے فلسطینیوں کو امن منصوبہ کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے کے 93 فی صد علاقہ کی پیش کش کی ہے.یہ انکشاف موقر اسرائیلی اخبار ہارتز نے اپنی منگل کی اشاعت میں ایک رپورٹ میں کیا ہے.
مجوزہ منصوبے کے تحت مغربی کنارے کا علاقہ اسی صورت میں صدر محمود عباس کے حوالے کیا جائے گا اگر ان کی فورسز اسلامی تحریک مزاحمت حماس سے غزہ کی پٹی کا کنٹرول واپس لے لیں گی.
مجوزہ معاہدے میں سرحدوں کے تعین کے وسیع تر منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے غزہ سے متصل 5.5 فی صد کے برابر علاقہ اورغزہ کو مغربی کنارے سے ملانے والا روٹ دیا جائے گا.
فلسطینی وزیر اعظم کی جانب سے تجویز گزشتہ سال نومبر میں امریکا کی سرپرستی میں شروع کی گئی امن بات چیت کے تناظر میں پیش کی گئی ہے جس کا مقصد عشروں سے تصفیہ طلب مشرق وسطیٰ کے سلگتے ہوئے مسئلہ کو اس سال کے آخر تک حل کرنا ہے.
”ہارتز”نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مجوزہ معاہدے پر آئندہ مہینوں یا برسوں میں عمل درآمد کیا جائے گا اور اس میں مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت کے بنیادی مسئلہ کو شامل نہیں کیا گیا.
فلسطینی عرب آبادی پر مشتمل مقبوضہ مشرقی بیت المقدس اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967ء کی چھے روزہ جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا اور اس کو بزور طاقت اپنا دارالحکومت قرار دے دیا تھا .اب اسرائیل پورے مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دائمی غیر منقسم دارالحکومت قرار دیتا ہے لیکن عالمی برادری اس کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتی.
معاہدے میں فلسطینی مہاجرین کے پیچیدہ مسئلے کا حل بھی تجویزکیا گیا ہے جس کے مطابق 1948ء کی جنگ کے نتیجے میں صہیونیوں کے ہاتھوں بے گھر کئے گئے بعض فلسطینی مہاجرین کواسرائیلی علاقوں میں واپس آنے کی اجازت دی جائے گی اور 45لاکھ کے قریب مہاجرین کومجوزہ فلسطینی ریاست میں آباد کیا جائے گا.
اسرائیل نے مغربی کنارے کے جس سات فی صد علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے وہاں یہودی آباد کاروں کے بلاک ہوں گے جن میں مقبوضہ بیت المقدس کے نواح میں ڈھائی لاکھ یہودی آبادکاروں کی بستیاں بھی شامل ہیں اور بعض یہودی بستیاں مغربی کنارے کے شمال میں ہوں گی.
اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان مارک ریگیف نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم انہوں نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”فلسطینیون کے ساتھ مذاکرات میں کئی موضوعات خاص طور پر سرحدوں کے بارے میں پیش رفت ہورہی ہے”.
سات سال کے وقفے کے بعدفریقین کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے بعد بظاہر کوئی نمایاں پیش رفت نظر نہیں آرہی اور ان مذاکرات کو گزشتہ ماہ اس وقت دھچکا لگا تھا جب ایہود اولمرٹ نے آئندہ چند ماہ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا.
اسرائیلی وذیر اعطم کو بدعنوانی کے چھے مقدمات کا سامنا ہے جس پر ان کی مخلوط حکومت کے ارکان کی جانب سے بھی ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.30 جولائی کو اسرائیلی وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ 17 ستمبر کوکادیما پارٹی کے نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے.