پنج شنبه 01/می/2025

رائٹر کے کیمرہ مین کی ہلاکت پر اسرائیلی ترجمان کی وضاحت کی مذمت

اتوار 17-اگست-2008

فلسطین سینٹر برائے انسانی حقوق نے وسطی غزہ کی پٹی کے جوھرالدیک علاقے میں رائٹر نیوز ایجنسی کے کیمرہ مین اور تین دیگر شہریوں جن میں دو بچے بھی شامل تھے کی ہلاکت پر اسرائیلی فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے سرکاری ردعمل کی مذمت کی ہے-

کیمرہ مین فاضل شانا اور دوسرے شہری اسرائیلی ٹینک حملے کا نشانہ بنے- اسرائیلی ایڈووکیٹ جنرل بریگیڈئر جنرل اوی ھے مینڈل بلٹ نے کہا ہے کہ ان چار غیر مسلح افراد کو ہلاک کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوگی-

فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق کے مطابق ’’ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے دیے جانے والے ردعمل سے اسرائیلی ریاست اور اس کی قابض افواج کی ناکامی کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی شہریوں کے قتل عام کی تحقیق کرانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں-

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ستمبر 2000ء میں انتفاضہ ثانی کے آغاز کے بعد سے اب تک اسرائیلی قابض فوجیوں نے نو صحافیوں کو جاں بحق کیا اور 170 صحافیوں کو زخمی کیا-12 اگست کو رائٹر نیوز ایجنسی کو بریگیڈئر جنرل ایوی ھئیے مینڈل بلٹ کی طرف سے ایک خط موصول ہواجس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی دستے جوھر الدیک میں یہ نہ دیکھ سکے کہ فاضل شانا نے کیمرہ پکڑ رکھا تھا یا یہ کہ اس کے ہاتھ میں ہتھیار ہے-
 
رائٹر کے نام تحریر کردہ اپنے خط میں مینڈل بلٹ نے کہا کہ ’’ٹینک عملہ اس قابل نہ تھا کہ وہ ٹرائی پوڈ کی حقیقت کو سمجھ سکے یا یہ کہ انٹی ٹینک میزائل، مارٹر یا ٹیلی وژن کیمرہ میں فرق کرسکے- مینڈل بلٹ نے مزید کہا کہ ٹینک عملہ نے سمجھا کہ ٹرائی پوڈ پر جو آلہ رکھا ہوا ہے وہ اسلحہ ہے اس لحاظ سے اسلحے کو نشانہ بنانے کا عمل درست تھا- فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق نے مزید کہا کہ اس واقعے کے بارے میں جو معلومات غیر جانبدار ذرائع سے ملی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ فاضل شانا اور اس کا ساتھی وفا ابو مزید (رائٹر کے لیے آواز ریکارڈ کرنے والا) جوھر الدیک میں شام پانچ بجے پہنچے- اس سے ایک گھنٹے قبل نو فلسطینیوں کو میزائل حملے سے شہید کردیا گیا تھا- ان دونوں افراد نے بلٹ پروف شرٹیں پہن رکھی تھیں، جس پر واضح طور پر ’’پریس‘‘ تحریر تھا- وفا ابو مزید نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم جوھر الدیک کے علاقے میں شام پانچ بجے پہنچے تو ایمبولینس گاڑیاں شہید ہونے والے بچوں کو لے جاچکی تھیں-
 
جس گاڑی پر یہ لوگ موجود تھے اس پر واضح طور پر رائٹر تحریر تھا- اسے گائوں سے نکال دیا گیا- ہمیں دو ٹینک اور ایک بلڈوزر نظر آرہا تھا اور ہم نے اپنی حفاظت کے لیے گاڑی کو اس سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر پارک کیا- اس واقعے کی فلم بنانے کے لیے فاضل نے اپنا کیمرہ کھولا- آواز سن کر اردگرد سے بچے آکر دیکھنے لگے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے- فاضل اور میں تین میٹر کے فاصلے پر کھڑے تھے کہ اچانک مجھے دھماکے کی آواز سنائی دی- میں نے اپنے آپ کو بھی سڑک پر گرالیا- لیٹے لیٹے میں نے دیکھا کہ فاضل اور دو لڑکے ہلاک ہوچکے ہیں اور ان کا خون بہہ رہا ہے- اسرائیلی ٹینک نے فاضل شانا، چودہ سالہ احمد عارف فراج اللہ اور سترہ سالہ غسان خالد ابو عطیوی اسرائیلی ٹینک کا گولہ لگنے سے ہلاک ہوگئے-
 
ایک منٹ بعد اسرائیلی فوجی دستوں نے ایک اور گولہ داغ دیا جس سے رائٹر کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی- وفا ابو مزید نے خود دیکھا کہ دوسرے دھماکے سے دو اور بچے اڑ گئے اور بائیس سالہ خلیل اسماعیل دغمس بھی جاں بحق ہوگیا-

فلسطین سینٹر برائے انسانی حقوق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی ایڈووکیٹ جنرل کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی ریاست اور اس کی قابض افواج فلسطینی علاقوں میں جرائم کے انعقاد کے بعد ان کی تحقیقات نہیں کرتیں- انہوں نے کہا کہ اس طریقے سے درجنوں صحافیوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے-
 
اس واقعے اور دیگر واقعات کی بناء پر فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے جو اسرائیلی فوجی دستوں کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کی تحقیقات کرسکے- انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ تحقیقات جنگی مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں- ان کے لیے قانونی جواز پیش کرتی ہیں اور ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں کہ اسرائیلی فوج ان مظالم کو جاری رکھ سکے-فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ صحافی کے واضح قتل کے باوجود اسرائیلی ایڈووکیٹ جنرل کا بیان حقائق کو چھپانے کے مترادف ہے-

مختصر لنک:

کاپی