شنبه 03/می/2025

اسیر فلسطینی بچوں کی حالت زار

ہفتہ 23-اگست-2008

بین الاقوامی برادری میں بچوں کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے- وہ کسی بھی قوم کی بنیاد اور مستقبل ہوتے ہیں- ان کے حقوق عالمی سطح پر مسلمہ ہیں- حتی کہ ان سے مشقت لینا بھی غیر قانونی ہے – لیکن صہیونی حکومت کے ہاں قوانین اور اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکھتے -اسرائیلی عقوبت خانوں میں سینکڑوں بچے قید ہیں-

اسیران کے حقوق کی محافظ تنظیم واعد کے مطابق قابض اسرائیلی حکومت انتفاضہ اقصی سے اب تک 3500بچوں کو اغوا کرچکی ہے جبکہ  340 بچے ابھی تک قید و بند کی مشقتیں کاٹ رہے ہیں- جو ادنی سے ادنی حقوق سے محروم ہیں- اغوا شدہ بچے مختلف قید خانوں میں رکھے گئے ہیں- تلموند کی جیل میں 104‘عوفر جیل میں 80‘نقب جیل میں 38‘مجدو میں 54بچے قید ہیں جبکہ باقی بچوں کو مختلف اسرائیلی حوالاتوں اورقید خانوں میں رکھاگیاہے- قانونی لحاظ سے قید بچوں میں 213 بچوں کو عدالت کی جانب سے سزا سنائی جا چکی ہے جبکہ 107بچے اپنے مقدمے کے شروع ہونے کے انتظار میں ہیں اور 10بچوں کو بغیر کسی الزام لگائے سیاسی طور پر گرفتار کیاگیاہے-

رپورٹ کے مطابق 82 بچے ایسے ہیں جن کی عمریں 15سال سے کم ہیں جن میں 2بچوں کی عمر 18سال سے کم ہے- اغوا کئے گئے بچوں میں 450ایسے اسیران تھے جنہیں جب گرفتار کیاگیا تو وہ بچے تھے اور وہ جیل میں ہی جوان ہو کر 18سال کی عمر سے تجاوز کرگئے ہیں- اغوا کئے گئے بچوں میں سے 99فیصد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا- ان پر تشدد کے مختلف طریقے اپنائے گئے- بالخصوص زدوکوب کئے جانے کے علاوہ ان کے منہ پر لفافے چڑھائے گئے-

انسانی حقوق کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ قابض اسرائیلی حکومت نے فلسطینی اسیران بچوں کے خلاف غیر قانونی طریقے اختیار کئے – فلسطینی بچوں کے خلاف امتیازی پالیسی اختیار کی گئی- ان کے خلاف فوجی قانون کی شق نمبر132استعمال کی گئی جو مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے کمانڈر نے جاری کی- اس شق میں بچے کی عمر سولہ سال متعین کی گئی جبکہ اسرائیلی قوانین کے مطابق ہر وہ شخص جس کی عمر18سال سے کم ہے ‘کو بچہ تصور کیا جائے گا- فوجی عدالت میں فلسطینی بچوں کے خلاف امتیازی سلوک اپنایا گیا ہے- بالخصوص قانون کی شق نمبر132کے تحت فوج کو ایسے بچے کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت دی گئی ہے جس کی عمر12سال ہو-

واعد کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیل انتظامیہ بین الاقوامی قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے بچوں کے علاج معالجے کا بھی خیال نہیں رکھتی- ہر مرض کی دوا دردکش گولی اکامول ہے- بچہ جس قسم کے مرض میں مبتلا ہو اسے اکامول کی گولی دے دی جاتی ہے- ان کے لئے کوئی ڈسپنسر تک موجود نہیں ہے – اسرائیلی حکومت نے اسیر فلسطینی بچوں کو معمولی حقوق سے محروم کررکھاہے-  وہ اپنی گرفتاری کا سبب بھی نہیں جان سکتے- انہیں وکیل کرنے کی سہولت نہیں دی جاتی- اہل خانہ کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ وہ حکومت سے یہ معلوم کرسکیں کہ ان کے جگر گوشوں کو کس جرم کے تحت سے گرفتار کیا گیا ہے اور کہاں رکھاگیاہے- وہ اپنے بچوں سے ملاقات تک نہیں کرسکتے-

اسیران بچے انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں – ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتاہے- کھانا غیر معیاری اور کم ہوتاہے- لباس اور ستر مکمل نہیں ہوپاتا- سردیوں میں گرم کپڑے مہیا نہیں کئے جاتے – قید خانوں میں صفائی کا انتظام نہیں ہوتا- کمروں میں کیڑے مکوڑے پھرتے رہتے ہیں‘ ایسے کمروں میں قید کیا جاتاہے- جہاں پر روشنی تک نہیں آتی- ان میں ہوا کے اخراج کا مناسب انتظام نہیں ہوتا- بچوں کے کھیلنے کے ذرائع مہیا نہیں کئے جاتے- بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ بالکل کٹا ہوا ہے- انہیں تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے- اسرائیلی حکومت نے بچوں پر جرمانے عائد کرنے کا طریقہ اختیار کرکے  مدنی کاذریعہ بنالیاہے- ہر بچے کوجرمانہ کیا جاتاہے بعض اواقات جرمانے کی مالیت 10ہزار شیکل تک پہنچ جاتی ہے- جو تقریباً تین ہزار ڈالر بنتاہے-

تشدد کے حوالے سے بیت لحم سے اغوا کئے گئے بچے نے بتایاکہ اڑھائی ماہ قبل نصف شب اسرائیلی افواج نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر اسے اغواکیا- انہوں نے منہ پر پٹی باندھی اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالی اور جیپ میں ڈال کر معالیہ ادومیم بستی لے گئے- تفتیش کے کمرہ میں اس پر تشدد کیاگیا- تفتیش کاروں نے اس کے منہ پر کئی دفعہ تھپڑمارا- تھپڑ اس زور سے مارا جاتاکہ وہ زمین پر گرجاتا-جب وہ زمین پر گرتا تو فوجی اسے لاٹھی سے اٹھاتا- کئی گھنٹوں تک یہ صورت حال رہتی- ایک تفتیش کار نے بجلی کے بلب کی تیز روشنی اس پر ماری – یہ روشنی اتنی دیر تک اس کے منہ کی طرف رکھی گئی کہ حرارت سے اس کا منہ جل گیا- اب بھی اس کے چہرے پر وہ نشان موجود ہیں-

اس کے بعد پولیس وحشی کتا لے آئی اور اس کو دھمکی دی گئی کہ اس پر یہ کتاچھوڑ دیا جائے گا- بچے نے تفتیش کاروں کو بتایاکہ اس کی ٹانگ درد کررہی ہے تو تفتیش کار نے زور سے اس کی ٹانگ پر لاٹھی ماری- پھر اسے عبرانی زبان میں لکھے گئے کاغذات پر دستخط لئے گئے- نہیں معلوم کہ اس میں کیا کیا لکھاتھا-اس اسیر بچے سے صبح تک تفتیش جاری رہی- تفتیش مکمل کئے جانے کے بعد اسے ابودیس فوجی کیمپ منتقل کیاگیا- راستے میں فوجی اجتماعی طور پر اسے زدوکوب کرتے رہے-

وہ آنکھیں بند کئے بیٹھا رہا- چار گھنٹے کے طویل سفر کے بعد عتصیون جیل میں منتقل کردیا گیا-  وہاں پر فوجیوں نے اسے بالکل عریاں کردیا اور انتہائی ذلت آمیز اور غیرانسانی طریقے سے تفتیش کی- وہ بچہ ابھی عتصیون کیمپ میں قید ہے- اسیران کے حقوق کی محافظ تنظیم نے بچوں کو اغوا کرنے کی اسرائیلی پالیسی کی مذمت کی ہے اور بچوں کے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ہلال احمر اور تمام بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیاہے کہ وہ بچوں کی رہائی کے لئے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں-

 

مختصر لنک:

کاپی