عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے کہا ہے کہ عراق اورامریکا اس بات پررضامند ہوگئے ہیں کہ مجوزہ سکیورٹی معاہدے کے تحت تمام امریکی فوجی 2011ء کے آخر تک عراق سے واپس چلے جائیں گے جبکہ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا.
عراقی وزیر اعظم نے پیر کو بغداد میں قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”فریقین کے درمیان دراصل معاہدہ طے پاچکا ہے جس کے تحت2011ء کے آخر تک عراقی سرزمین پر کوئی غیر ملکی فوجی نہیں رہے گا اور سکیورٹی معاہدے کے بارے میں بات چیت میں اہم پیش رفت ہوئی ہے”.
عراقی حکومت نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ بات چیت میں تجویز پیش کی تھی کہ اگلے سال کے وسط تک امریکی فوجی عراقی شہروں اور دیہات میں گشت ختم کردیں اور تمام فوج 2011ء تک واپس چلی جائے.دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی معاہدے کے تحت عراق میں دسمبر2008 ء کے بعد امریکی فوجوں کوتعینات رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا.اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت عراق میں غیر ملکی فوجوں کی تعیناتی کا مینڈیٹ اورقانونی جوازدسمبر میں ختم ہورہا ہے.
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان رابرٹ ووڈ نے کہاہے کہ ”معاہدے کا مسودہ تیار ہوچکا ہے لیکن عراق کی جانب سے اس کی منظوری سے قبل اسے ملک کے سیاسی نظام کی مختلف سطحوں سے ہوکرگزرنا ہے جس کے بعد یہ معاہدہ طے پائے گا.”جب تک کوئی معاہدہ نہیں طے پاجاتا اس وقت تک کوئی معاہدہ نہیں ہے”.تاہم ترجمان نے 2011ء تک امریکی فوجوں کے انخلاء کے بارے میں تاریخ پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا.
صدر بش کی انتظامیہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے لئے عراق کو کوئی طے شدہ نظام الاوقات دینے سے انکارکر رہی ہے جبکہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی کا کہنا ہے کہ ملک میں تعینات ایک لاکھ چوالیس ہزار امریکی فوجی ضرورت سے زیادہ دیر نہیں رہیں گے اور وہ ان کی واپسی کے لئے واضح یقین دہانی چاہتے ہیں.
امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزارائس نے اپنے حالیہ دورہ عراق کے موقع پر کہا تھا کہ ”ہم معاہدے کے قریب تر ہیں اور اس حوالے سے تمام امور جلد طے کر لئے جائیں گے”.
ان کا کہنا تھا کہ ”سکیورٹی معاہدے میں کوئی غیر متعینہ مدت قبول نہیں کی جائے گی جس کی وجہ سے عراق میں بین الاقوامی فوجوں کی موجودگی برقرار رہے.
عراقی وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ کسی بھی غیر ملکی کو مکمل قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوگا جبکہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ اس کے فوجیوں کا عراقی عدالتوں میں ٹرائل نہ ہو.
اس وقت جن دوسرے ممالک میں امریکی فوجی تعینات ہیں وہاں کی حکومتوں سے امریکا کے طے پانے والے معاہدوں کے تحت مقامی قوانین کے بجائے فوجیوں کے خلاف امریکی فوجی قوانین کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے.
لیکن نوری المالکی کا کہنا تھا کہ ”ہم کسی کو بھی خواہ وہ غیر ملکی فوجی ہوں یاعراقی ،مکمل تحفظ دے کر اپنے بچوں کی زندگیوں کو داٶپر نہیں لگا سکتے بلکہ عراقی خون کا احترام کیا جانا چاہئے”.
عراقی وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ امریکی فوج کی کارروائیوں کے بارے میں ایک معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت وہ کوئی بھی آپریشن عراقی حکومت اور امریکی فورسز کی منظوری کے بغیر نہیں کریں گی.تاہم ان کا کہنا تھاکہ سکیورٹی معاہدے کے حوالے سے دوسرے حساس امورپر بات چیت ابھی جاری ہے.ان کا کہنا تھا کہ ”جب تک ان پر نظر ثانی نہیں کی جاتی اس وقت معاہدے پر دست خط کرنا مشکل ہوگا”