چند برس پہلے کی بات ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو یقین دلایا گیاکہ امریکی طرز عمل سے عوام الناس کو قوت ملے گی اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ہوگی کہ جس کی بنیاد (آزادی اور انصاف پر ہو اور اس بناء پر معاشی خوشحالی آئے گی- تاہم ان لوگوں کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ انہیں گمراہ کیاگیاتھا کیونکہ وہ انہیں نکھوں س ے دیکھ ر ہے تھے کہ افغانستان‘عراق‘ گوانتانا موبے اور فلسطین میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں لیکن ان کے اقدامات اور پالیسیاں‘ ان کی پالیسیوں کی نفی کرتے ہیں‘
جس جمہوریت کی وہ تبلیغ کرتے ہیں وہ ایک ہے اور جس پر وہ عمل کرتے ہیں وہ دوسری ہے دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد صدر جارج بش نے اپنی مملکت کی خارجہ پالیسی میں ’’جمہوریت ‘‘ کو مرکزی مقام دینے کا اعلان کیاتھا اور کہاتھاکہ ’’امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ جمہوری تحریکوں اور اداروں کی ہر قوم اور ثقافت میں حمایت کی جائے تاکہ اس دنیا سے ظلم کا خاتمہ کیا جاسکے-
ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جمہوریت کی حمایت کرنے اور دہشت و بربریت کی مخالفت کرنے کی بجائے بش نے دنیا کے کئی ممالک میں جمہوریت کے خلاف جنگ کرنا شروع کردی- مشرق وسطی کے کئی ممالک خصوصاً عرب ممالک میں انسانی حقوق کی مجرمانہ خلاف ورزیاں اور شہری آزادیوں کی سلبی‘ آج اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی کہ آٹھ برس قبل ‘بش کے صدر بننے سے پہلے ہوتی تھیں-
تشدد آج عام ہوچکاہے – آج مشرق وسطی کی تمام ریاستیں جو امریکہ کی دوست ہیں عملی طور پر پولیس ریاست بنی ہوئی ہیں کہ جہاں شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں اور انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتاہے‘ یہاں تک کہ انہیں ملازمت سے بھی محروم کردیا جاتاہے- کئی ممالک میں‘ہزاروں لوگوں کو مویشیوں کی طرح باندھ دیا جاتاہے اور انہیں مقامی یا پارلیمانی انتخابا ت میں شرکت کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس حالت میں کیا جاتاہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی تعریف بھی ساتھ ساتھ بیان کی جاتی ہے-
مقبوضہ فلسطین میں جارج بش نے جومنافقت اختیار کررکھی ہے وہ ساتویں سمان تک پہنچ رہی ہے- 2006 ء میں فلسطینیوں میں انتخابات ہوئے‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ وائٹ ہائوس میں بیٹھا ہوا شخص یہاں انتخابات چاہتاتھا- لیکن جب فلسطینیوں نے ایک ایسی جماعت کو ووٹ دیا جو صدر بش اور ارئیل شیرون کو پسند نہ تھا‘ فلسطینیوں پر جہنم نازل کردی گئی- 1943ء میں ہٹلر کی جانب سے وارسا کے انسانی باڑ ے کے بعد‘ بدترین حادثہ غزہ کی پٹی میں پیش یا کہ جب پورے شہر کی اقتصادی ناکہ بندی کردی گئی-
جب غزہ کے بچے بڑی تعداد میں موت کے منہ میں جا رہے تھے اور یہ صورت حال جاری ہے‘ بش انتظامیہ کی وزیر خارجہ کنڈو لیزا رائس نے اس موقع پر اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی کو اقتصادی ناکہ بندی پر مبارک باد پیش کی اور مسرت کا اظہار کیا- لیکن رائس نے بذات خود کوئی چیز دریافت نہیں کی ہے- کلنٹن انتظامیہ کے دور میں وزیر خارجہ میڈیلن البرائٹ نے اس سے بھی زیادہ درندگی کا مظاہرہ کیا‘ جب ان سے سوال کیاگیا کہ امریکہ نے عراق پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں جس سے دس لاکھ عراقی جاں بحق ہوچکے ہیں‘ تو انہوں نے اپنے جواب میں کہاکہ ’’اگرچہ امریکہ کو اس کا فائدہ پہنچتاہے تو یہ درست ہے- ‘‘
میرے خیال میں ہٹلر نے اور جوزف سٹالن نے اور اسی قسم کے دیگر قاتلوں نے بھی اسی قسم کے دلائل دیئے ہوں گے- دنیا کے اس حصے میں جسے تیسری دنیا کہتے ہیں- ایسے لوگ موجود ہیں ان کا خیال ہے کہ مغربی جمہوریت‘ اخلاقیات پر مبنی ہے لیکن حقیقی طور پر اس میں اخلاقیات ‘انصاف اور انسانی دوستی نہیں ہے- ان افغان شہریوں سے سوال کیجئے کہ جن کے گھر جلادیئے گئے اور جن کے شہروں اور دیہاتوں پر بمباری کی جا رہی ہے کہ جمہوریت کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے‘ عراقیوں سے پوچھے کہ جن کے ملک کو قرون وسطی میں دھکیل دیا گیا ہے‘ ان سے سوال کریں کہ وہ اب بہترہیں یا صدام حسین کے دور میں بہتر تھے-
فلسطینیوں سے پوچھئے کہ جن کے بچوں کو بیماریوں اور پریشانیوں کے حوالے کردیا گیا ہے کیونکہ مشرق وسطی کی واحد جمہوریت انہیں علاج کی فراہمی پر رضا منداور خوش نہیں ہیں -اس معاملے میں میں صرف جارج بش ہی خاص نہیں ہے‘ فلسطین ‘عراق اور افغانستان میں جو جنگیں ہوئی ہیں ان میں مغربی جمہوریت نے ایک کردار ادا کیا ہے-
ہم نے دیکھا کہ جرمنی‘ اٹلی ‘ فرانس اور برطانیہ کے لوگوں نے اسرائیل کے قیام کی ساٹھ سالہ تقریبات میں شرکت کی حالانکہ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے کہ جس کا وجود پہلے روز ہی سے ’’ناجائز‘‘ ہے اور اسی طرح ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے فلسطینیوں کو اپنے وطن سے نکال دینے کے واقعے کو بیسویں صدی کا جرم قرار دیا ‘ گورڈن براؤن ایک ایسے ملک کے وزیراعظم ہیں جس نے اسرائیل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا- برطانیہ کی حکومت ایسی حکومت ہے کہ جس نے صہیونیوں کو یہ موقعہ فراہم کیا کہ فلسطینیوں کی عصمت دری کریں اور یہاں کے مقامی باشندوں کو یہاں سے نکال باہرکریں اور اس سب کے باوجود برطانیہ نے بڑی محنت کی ہے کہ انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جائے کہ جو اپنی آزادی کی بات کررہے ہیں اور آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں-
آج مغرب کے جمہوری ممالک‘ جمہوریت اور انسانی حقوق ٹھونسنے میں مصروف ہیں اس کے لیے پولیس کے نظام کو مضبوط بنایا گیاتاکہ پولیس‘جدوجہد کرنے والوں اور مظاہرے کرنے والوں پر تشدد کرسکے‘ گرفتارکرسکے‘ عام شہری‘ صحافی ‘ یونیورسٹی پروفیسر یہ سب کے سب‘ سپاہیوں کے ہاتھ مار کھاتے ہیں‘ ان میں سے کئی ایک مار بھی ڈالے گئے ایسے لوگوں کے ہاتھوں جو چند سو ڈالر کے لیے کوئی بھی اقدام کرتا ہے مغرب‘ جو جمہوریت برآمد کر رہاہے وہ جمہوریت نہیں ہے کہ جو اس کے اپنے گھر کے لیے ہے –