وہ 1957ء میں رام اللہ کے گاؤں کوبر میں پیدا ہوئے ان کی عمر بیس سال تھی کہ قابض افواج نے چار اپریل 1978ء کو انہیں اغوا کرلیا- نائل برغوثی کی بہن اپنے بھائی کے اغوا کا واقعہ یاد کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ جب نائل برغوثی کو گرفتار کیا گیا میری عمر انیس برس تھی- میں ان سے ایک سال چھوٹی ہوں- اسرائیلی افواج نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور ہمارے گھر کے سامان کو تہہ و بالا کرنے کے بعد وہ میرے بھائی کو اغوا کر کے لے گئے- جب انہیں لے جایا جارہا تھا تو وہ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور آنکھوں پر باندھ دی گئی- نائل برغوثی کے اغوا کے آٹھ دن بعد میرے والد اور بھائی عمر کو بھی اغوا کرلیا گیا- تینوں نے ایک سو بیس دن اکٹھے تفتیش میں گزارے-
حنان نے اپنے بھائی سے ملاقاتوں کے حوالے سے ذکر کیا کہ میرے والد یہی اکثر نائل برغوثی سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے- میری والد کو اسرائیلی انتظامیہ نے بڑی طویل مدت تک اپنے بیٹے سے ملاقات سے محروم رکھا- میرے والد کی وفات کے بعد نائل برغوثی سے ملاقات کی اجازت کے لیے ہم نے انسانی حقوق کے کئی اداروں سے راطے کیے بلاآخر ملاقات کی اجازت مل گئی لیکن صرف میری والدہ کو وہ ہمارے گاؤں کے اسیر کی اہلیہ کے ساتھ جیل گئیں اور نائل برغوثی سے اکیلے ملاقات کی تھی-
میری والدہ کو اپریل 2006ء میں جب نائل برغوثی سے ملاقات کی اجازت دی گئی تو اس وقت میری والدہ کی صحت بہت خراب تھی- ہمیں انہیں ایمبولینس اور وھیل چیئر پر لے جانا پڑا- یہ ان کی اپنے بیٹے سے آخری ملاقات تھی- اس ملاقات کے چھ ماہ بعد وہ انتقال کر گئیں- نائل اپنے والد اور والدہ کے جنازے میں شرکت نہ کرسکا-
حنان نے واضح کیا کہ اس بھائی کی طویل مدت سے پس دیوار زندان ہے اور اس دوران اس نے بہت سی مشقتیں برداشت کی ہیں لیکن اس کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے- نائل کی خواہش تھی کہ وہ والدہ اور والد کے دنیا سے جانے سے پہلے کم از کم ایک دن ان کے ساتھ رہ سکے لیکن اس کی یہ تمنا پوری نہ ہوسکی- دوسری جانب اس کی والدہ حاجہ فرحہ نے وفات سے پہلے کہا کہ کاش میں اپنے بیٹے کو ایک دفعہ گلے لگا سکتی- اس کے آخری الفاظ تھے نائل کو میرا سلام کہنا، اس کا خیال رکھنا-
حاجہ فرحہ برغوثی شاعرہ تھیں اور کوبر کی شاعرہ کے لقب سے مشہور تھیں- نائل برغوثی کے بعد اسرائیلی جیلوں میں قدیم ترین دس اسیران کی تفصیلات درج ذیل ہیں-
عصفور عبد اللہ برغوثی رام اللہ میں 1954ء میں پیدا ہوئے- 23 جون 1978ء سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید و بند کی مشقتیں کاٹ رہے ہیں- شادی شدہ ہیں-
اکرم عبد العزیز قلقیلیہ میں 1962ء میں پیدا ہوئے 2 اگست 1979ء سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید ہیں- غیر شادی شدہ ہیں-
فواد قاسم عرفات مقبوضہ بیت المقدس میں 1962ء میں پیدا ہوئے- 30 جنوری 1981ء سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں-
ابراہیم فضل الخلیل میں 1954ء کو پیدا ہوئے- 8 جنوری 1982ء سے اسرائیلی عقوبت خانوں کی مشقتیں برداشت کررہے ہیں-
حسن علی رام اللہ میں 1952ء کو پیدا ہوئے- 8 اگست 1982ء سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں-
عثمان علی حمدان 1952ء کو نابلس میں پیدا ہوئے- 15 اکتوبر 1982ء سے اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں-
خالد سلامہ 1932ء کو مقبوضہ فلسطین کے دیہات عارہ میں پیدا ہوئے- 15جنوری 1983ء سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں-
کریم یوسف 1958ء میں مقبوضہ فلسطین کے دیہات عارہ میں پیدا ہوئے- 6 جنوری 1983ء سے اسرائیلی قید میں ہیں-
ماہر عبد الطیف 1983ء میں مقبوضہ فلسطین کے دیہات عارہ میں پیدا ہوئے- 20 جنوری 1983ء سے اسرائیل میں قید و بند کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں-
سلیم علی ابراہیم 1952ء کو غزہ میں پیدا ہوئے- 30 مئی 1983ء سے قید ہیں–
ان تمام مذتکرہ بالا قیدیوں کا کوئی جرم ثابت نہیں ہے- بغیر کسی جرم کے ان قیدیوں کو اتنی طویل سزائیں دی گئیں ہیں- انسانی حقوق کے تمام ادارے ان سزاؤں پر خاموش ہیں- اس مہذب دنیا میں کوئی تنظیم اور فرد جو ان قیدیوں کو آزادی دلاسکے جو بیس بیس سالوں سے جیل میں قید ہیں-