پنج شنبه 01/می/2025

مشکوک روابط: صہیونی انٹیلی جنس کا جاسوس بھرتی کرنے کا نیا ذریعہ

ہفتہ 6-ستمبر-2008

غزہ سے انخلاء کے بعد صہیونی انٹیلی جنس کے لیے فلسطینیوں کی جاسوسی اور ان سے ربط ضبط کے مواقع بھی نمایاں طور پر کم ہوگئے۔اسرائیل اب آبادی کے مختلف گروہوں سے الگ الگ روابط بڑھانے لگا ہے اور اس کاوش کا مقصد نئے ایجنٹوں کی  بھرتی ہے۔تاکہ فلسطینی منظر نامے کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہی رکھی جاسکے۔مذکورہ سعی کے دوران نوجوان اسرائیلی ایجنسیوں کا اصل شکار ہیں

سیکیورٹی اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق صہیونی انٹیلی جنس سوسائٹی کے مختلف طبقوں بالخصوص نوجوانوں کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے اور اس مقصد کے لیے جدید کمیونیکیشن کے خاص اسلوب اختیار کیے جارہے ہیں۔

دور سے کنٹرول کرنے کے لیے رابطہ

غزہ سے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والے گیپ میں اسرائیل اپنے نئے اور پرانے ایجنٹوں سے رابطہ دوبارہ استوار کر رہا ہے اور انہیں نئی ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں ۔ انخلاء کے بعد صہیونی انٹیلی جنس نیٹ ورک پر بڑا برا اثر پڑا تھا۔بعد ازاں ان کی اعتماد یافتہ پولیس اور دیگر فلسطینی سیکیورٹی ایجینسیوں پر بھی حماس کا مکمل قبضہ ہوگیا نیز غزہ سے اسرائیل کو بارڈر کراسنگز بھی بند ہوگئیں اور اس طرح اسرائیل کا اپنے ایجنٹوں سے براہ راست رابطہ اور اندرونی صورت حال کے ادراک کی صلاحیت کلی طور پر معدوم ہوگئی۔

موبائل رابطہ کا متبادل ذریعہ

ان ساری مشکلات کے ہوتے ہوئے اسرائیل کے سامنے موبائل کالز کےعلاوہ کوئی متبادل باقی نہیں رہاتھا۔ لہذاشاباک نے اسی ذریعے سے اپنے ایجنٹوں سے رابطہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ۔اگرچہ خفیہ ایجنسی کے ذرائع اس طریقے سے ملنے والی معلومات پر قطعا اعتماد تو نہیں کرتے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال اس سے زیادہ باوثوق ذریعہ دستیاب نہیں ۔

اس ذریعے سے ملنے والی معلومات کا اور ذرائع مثلا سیٹلائٹ  اور الیکٹرانک میڈیا اورانٹرنیٹ وغیرہ سے حاصل شدہ معلومات سے اچھی طرح موازنہ کیا جاتا ہے ۔ نیز موبائلز کی ریکارڈ شدہ گفتگو کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اسی طرح کبھی ایک ہی ٹاسک دو یاتین ایجنٹوں کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ ایک ایجنٹ اور دوسرے ایجنٹ کی معلومات کو جانچا اور پرکھاجاسکے ۔ایسے میں کوشش کی جاتی ہے کہ ایک ایجنٹ کو دوسرےایجنٹ کا پتہ بھی نہ لگنے دیا جائے۔ تاہم معلومات کے حصول کا یہ طریقہ خاصا مؤثر ثابت ہوتا آیا ہے لیکن اس قدر تیز نہیں ہے جس قدر کہ موبائل یا اس قسم کا دوسرا ذریعہ معلومات۔

رابطہ کا ذریعہ

غزہ میں موجود فلسطینی سکیورٹی ذرائع کے مطابق اسرائیل کا اپنے ایجنٹوں سے رابطہ اسرائیل خفیہ ایجنسی کے میجر رینک کے آفیسر کے ذریعہ ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر یہ میجر غزہ کے اندر کے کسی ایک علاقے جیسے الشجاعیہ ،شیخ رضوان، التفاح کے ہوتے ہیں۔ ان کے نام حقیقی نہیں ہوتے اور کوڈ ورڈز میں بولے جاتے ہیں جیسے ابو غازی،ابو حدید ،ابو مفید وغیرہ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے معین نام بھی ہوتے ہیں جیسےمائک ،موشے،ڈیویڈ وغیرہ۔

مذکورہ میجرز زبان و بیان پر مہارت تامہ رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر روانی سے عربی بولتے ہیں اور فلسطین کے مقامی لہجوں پر پوری دسترس رکھتے ہیں۔ ارد گرد جو کچھ ہورہا ہوتا ہے اس سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں اور اسی طرح کمیونیکیشنز کے جدید ترین ٓاسالیب کے استعمال پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف ایجنٹ کو اس کے اصلی نام ہی سے پکارا جاتا ہے تاہم کبھی تصوراتی نام بھی دے دیا جاتا ہے۔ایجنٹ کو ساختہ اسرائیل کمیونیکیشن آلات فراہم کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات موبائیل فون بھی فراہم کیا جاتا ہے

خاص حالات میں ایجنٹ کو انتہائی جدید ترین اور قیمتی آلات بھی فراہم کر دیے جاتے ہیں جیسے خاص قسم کےموبائلز جن پر سامنے لگے خاص نمبرز کو اگر دبایا جائے تو ان کا رنگ اورنج ہوجاتا ہے۔ ان ایجنٹس کو مخصوص نمبرز دیے جاتے ہیں جنہیں صرف وہی جانتا ہے اور انہپیں ملائے بغیر رابطہ ممکن نہیں ہوتا۔

بعض ایجنٹوں سے ذمہ دار انٹیلی جنس کا اس ایریا کا ذمہ دار میجر خود رابطہ کرتا ہے اور انہیں رابطے کے لیے مطلوبہ الات فراہم نہیں کیے جاتے بلکہ ملاقات کا وقت اور مقام طے ہوتا ہے کبھی دن کے اوقات میں اور کبھی رات کی تاریکیوں میں میجر اس کے پاس موجود معلومات حاصل کرکے خود آگے شاباک کو منتقل کرتا ہے ۔

جاسوسی کے لیے ننھے منے کیمرے بھی استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں ایجنٹ کے ذریعے مطلوبہ مقام پر پھینک دیا جاتا ہے اور یہ اردگرد کی تصاویر براہ راست شاباک کے دفتر میں منتقل کرنے لگتے ہیں۔

خلط مبحث پیدا کرنا

ایجنٹوں سے رابطہ کے اپنے طریقہ کار کو چھپانے اور قانون کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے شاباک ان آلات کمیونکیشن اور موبائلز کی وسیع پیمانے پر ترویج کا اہتمام کرتی ہے تاجروں اور سابقہ رجیم کے لوگوں میں اس قسم کے موبائلز کی بڑے پیمانے پر ترویج کی جاتی رہی ہے۔براہ راست ترویج سے گریز کرتے ہوئے بالواسطہ ترویج کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔

 معاشرے کی ثقافت میں تبدیلی

رپورٹ کے مطابق ایجنٹوں کے ساتھ صہیونی رابطہ کئی عنوانات سے ہوتا تھا مثلا روزگار،علاج معالجہ،تجارت اور اب  انٹیلی جنس کی صورت حال اس لیے مخدوش ہے کہ نہ تو مزدور مزدوری کے لیے اسرائیل جا رہے ہیں ،تجارت بند ہے اور علاج معالجے کے لیے مریضوں کی بڑی تعداد کو اسرائیل جانے نہیں دیا جارہا [انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل جانے والے مریضوں کو اسرائیل کی جاسوسی کے لیے مورد الزام ٹھہراکر مسلسل تنگ کیا جاتا ہے]

مذکورہ رکاوٹوں کی وجہ سے اب اسرائیل نے ایجنٹوں سے رابطہ کے لیے اپنا نیٹ ورک مضبوط کرنے اور فلسطینی علاقوں کی اندرونی صورت حال جاننےکے لیے مختلف اور طریقے بھی  اختیار کرنے شروع کیے ہیں جیسے سروے،اور فلسطینی نوجوان کی ثقافت میں تبدیلی اور نوجوان کے قلب و ذہن میں یہ خیال راسخ کرنا کہ اسرائیل کے لیے کام کرنے کا مطلب ہرگز جاسوسی اور ایجنٹی ہی نہیں ہے۔ 

نئے ایجنٹوں کی بھرتی

ان رابطوں کا اصل مقصود نئے جاسوسوں اور ایجنٹوں کی بھرتی ہے ۔تاہم یہ بات واضح رہے کہ شاباک نیے ایجنٹوں کی الل ٹپ بھرتی نہیں کرتی لیکن اگر کوئی نوجوان شاباک کے جال میں گرفتار ہوجائے تو اسے اپنے ساتھ چلانے سے گریز نہیں کرتی ۔انٹیلی جنس ذمہ داران کا خیال ہے کہ ہمارے ساتھ وابستگی کا کم سے کم مطلب تو یہی ہے کہ یہ نوجوان ہمارے مخالفین اور مزاحمین کی صف سے نکل آیا ہے  اگرچہ ہمارے لیے کوئی زیادہ کارآمد تو نہیں تاہم ہمارے مخالفین کے لیے بھی کار آمد نہیں رہا۔

نئے ایجنٹ کچھ اس طرح بھرتی کیے جاتے ہیں

بتایا گیا ہے کہ نئے ایجنٹوں کی بھرتی کو روزگار کی فراہمی کے جھانسے سے شروع کیا جاتا ہے بعد ازاں اسے کچھ نئی ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ اپنے شکار کے بارے میں اپنے پرانے ایجنٹوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں لیکن اس کے بارے میں براہ راست معلومات نہیں لی جاتیں اور یہ نہیں پوچھا جاتا کہ فلاں فرد ایجنٹ بنے تو کیسا رہے گا؟ بلکہ ان سے مذکورہ فرد کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے لیے کہا جاتا ہے

ہدف طے ہوجانے کے بعد براہ راست رابطے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔اپنے ہدف سے مسلسل رابطوں کے ذریعے شاباک پر واضح ہوجاتا ہے کہ آیا اس کا شکار نفسیاتی طور پر اتنا مضبوط ہے کہ ہمارے کام آسکے یا نہیں ؟

بعد ازاں اسے مالی خوشحالی اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ اور بوقت ضرورت اسرائیل میں پناہ دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے اسی دوران پہلے سے موجود ایجنٹ کسی ایسے معاملے کا سراغ لگانے میں لگے رہتے ہیں جو اس کی عزت کو خاک میں ملانے والا ہو اور جس سے اسے بلیک میل کیا جاسکے۔ کبھی سیاسی گفتگو کے ذریعے نئے شکار کو باور کروایا جاتا ہے کہ وہ امن اور سلامتی کا چمپئین ہے اور باقی ساری دنیا بالخصوص مجاہدین او مزاحمتی گروہ وطن دشمن اور سلامتی کے دشمن ہیں اور اس مقصد کے لیے ایجنٹ حضرات مختلف سیاسی موقف رکھنے والے فلسطینی گروہوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنی وابستگی بھی جتلاتے ہیں تاکہ ان کا شکار ان کو محب وطن فلسطینی ہی شمار کرے۔

تحریک مزاحمت کو کنفیوز کرنا اور مجاہدین کی صلاحیتوں سے اگاہی حاصل کرنا۔

تحریک مزاحمت کو کمزور کرنے اور اور اس کی راہ کو کھوٹا کرنے کے لیے ایجنسیوں کے پروردہ ایجنٹ مختلف تنظیموں کے قائدین یا ان کے معاونین کو دھمکانے کے لیے ان سے فون پر رابطہ کرکے انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ تم ہماری دسترس میں ہو۔ رپورٹ کے مطابق اب یہ ایجنٹ اور خفیہ ایجنسیاں براہ راست برسرپیکار سرگرم مجاہدین سے فردا فردا رابطہ استوار رکنے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہیں یہ پیغامات ارسال کیے جاتے ہیں کہ آپ ہماری نظروں میں ہیں،آپ کی تمام حرکات و سکنات کی ہم نگرانی کر رہے ہیں،آپ کی موت قریب آچکی ہے وغیرہ وغیرہ اس ساری مشق کا اصل ہدف یہی ہوتا ہے کہ خوف ایک ایسی نفسیاتی کیفیت پیدا کردی جائے جو مجاہد کے دل کو فتح،شہادت اور جنت نعیم کی آرزو سے خالی کردے۔

خود تشخیصی پہلو

صہیونیوں کی اپنے ایجنٹوں سے رابطوں کے تفصیلات کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ نئے شکار کے چناؤ میں خود تشخیصی سوالات پر بے حد زیادہ توجہ مبذول کی جاتی ہے۔ نوجوان پر سوالات کی ایسے بوچھاڑ کیجاتی ہے گویا کہ وہ پہلے سے ایجنٹ ہے اور اسے فورا جواب دینا ہے کبھی مذکورہ نوجوان پر اس کی زندگی کے ایسے پہلو پیش کیے جاتے ہیں جو اس کے نزدیک گویا کہ راز تھے ۔اسے کہا جاتا ہے کہ تم نے فلاں سرگرمی میں حصہ لیا تھا یا تم فلاں وقت کسی اور علاقے میں گئے تھے اور تم نے فلاں ٹریننگ پروگرام میں شرکت کی تھی تمہارے گروپ میں فلاں اور فلاں صاحب بھی شامل تھے۔

اسی طرح اس کے سامنے کبھی اس کی زندگی کا اپنا یا اس کے کسی بہن بھائی یا کسی قریبی عزیز کی زندگی کا شرمناک سکینڈل رکھا جاتا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے حیران پریشان کیا جاسکے اور وہ اپنے آپ سے یہی سوال کرتا رہے کہ اس کے پاس یہ معلومات کہاں سے آگئیں ؟اس ساری مشق کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ مجاہدین کے دلوں میں شک کا کانٹا بونے میں کامیابی ہو۔ اور ان کے دلوں میں اپنے دوسرے مجاہد بھائیوں کے لیے شک و شبہ پیدا ہوجائے اور وہ اپنی اس اجتماعیت ہی سے برگشتہ ہوجائیں جس کا وہ حصہ ہوتے ہیں۔ اس طرح بعض اوقات انہیں تحریک مزاحمت کے اندر سے بھی ایجنٹ مل جاتے ہیں۔

مذکرات کی جھوٹی دعوت

صہیونی ایجینسیوں کی دیگر تیکنیکس کے علاوہ ایک یہ بھی ہوتی ہے وہ مسلسل مذاکرات،بقائے باہمی اور احترام انسا نیت کا پرپیگنڈا کرتی رہتی ہیںاور ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہم گلوبلائزیشن کے دور میں جی رہے ہیں اب کمیونیکشنز کی تیزی میں یہ سارے مفہوم مغلوب قوموں کی سوچ و فکر اور ان کی ثقافت کاحصہ ہوچکے ہیں۔

ہمیں عالمی حالات سے ،اپنے زمانے سے کٹ کر نہیں جینا چاہیے۔ جبکہ فی الاصل ہوتا یہ ہے کہ اس پراپیگنڈے سے سب سے زیادہ متاثر عام شہری ہی ہوتے ہیں جنہیں اس کائناتی حقیقت کا ہر گز ادراک نہیں ہوتا کہ غالب قوم کی تہذیب وثقافت مغلوب کی تہذیب و ثقافت کو بالکل فنا کردیتی ہے نہ کہ بر عکس ۔

بہت سے نوجوانوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں صہیونیوں کی جانب سے مشکوک پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں۔ایسے پیغامات ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی جانب سے بھی موصول ہوتے رہے ہیں جو امن اور پرامن بقائے باہم کے لیے کام کرتی ہیں (Peace Activists)،واضح رہےکہ ایسی این جی اوز میں سے اکثر تو براہ راست اسرائیلی ایجنسیوں کی زیرنگرانی کارفرما ہیں اور جو اسرائیلی اثر سے باہر بھی ہیں ان کی سعی و جہد کا الٹی میٹ نتیجہ بھی بہر حال اسرائیلی کاز کا غلبہ ہی نکلتا ہے۔

رابطوں کی تعداد اور ان کا حجم

تحقیقات کے مطابق جوں جوں اسرائیل کی اپنے تنخواہ دار ایجنٹوں کے ساتھ روابط برقرار رکھنے میں مشکل پیش آتی رہی توں توں اس قسم کے مشکوک رابطوں میں اضافہ دیکھنے کو ملنے لگا ہے۔  

معاشرے میں کچھ افراد تو ایسے ہیں جو اپنے اردگرد موجود افراد کو ان کالز کے بارے میں اعتماد میں لیتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ ہمیں ایسی اور ایسی ترغیبات کا سامنا ہے جبکہ بعض لوگ اپنے آپ کو مشکوک کرلینے سے بچنے کی خاطر ان کالز کا سرے سے ذکر تک نہیں کرتے ۔ معاشرے کی ایک بڑی تعداد چونکہ کسی بھی سیاسی تنظیم کا حصہ نہیں ہوتی اس لیے ان کے سامنے کوئی راستہ بھی نہیں ہوتا کہ ہم صہیونیوں کی جانب سے کسی مشکوک رابطہ کی صورت میں کس کو بتائیں اور کہاں رجوع کریں؟

ذاتی تجربات

رپورٹ میں بہت سے ایسے واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں کہ صہیونیوں نے ایک نوجوان سے مسلسل رابطہ رکھا اور بالاخر وہ نوجوان یہودیوں سے تعاون کے لیے تیار ہوگیا۔ خفیہ ایجنسی سے وابستہ میجر نے اسے مطمئن کیا کہ تم ایجنٹ نہیں ہو نہ ہی ہم تم سے جاسوسی کروانا چاہتے ہیں۔نہ آپ سے بدکاری کروانی ہے نہ بندہ مروانا ہے اور نہ ہی آپ کو کوئی گزند پہنچاسکے گا۔ نہ ہی کمانڈوز کے ساتھ حملہ میں نکلنا ہوگا نہ مسلح ٹریننگ دی جائے گی نہ تم اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دوگے نہ کسی نیٹ ورک کا حصہ بن کر تمہیں کام کرنا پڑےگالہذا تم پر کوئی شک بھی نہیں کرسکے گا۔

نوجوان نے بھی قابض قوت کے ساتھ مال اور کچھ دیگر امور میں تعاون کرنا منظور کیا کیونکہ اس کے خیال میں ذرا فاصلہ سے کام کرنے کی صورت میں اسے مناسب پردہ داری مل جائے گی اور کسی پر اس کے معاملات کھلنےکا امکان بھی کم ہی ہوگا کہ وہ کیا کرتا ہے۔

بعض لوگ اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ ان کی ساری گفتگو ویجنسیاں ریکارڈ کررہی ہوتی ہیں۔کچھ نوجوان مذاق ہی مذاق میں صرف یہ جانچنے کےلیے کہ آخر کار یہ رابطہ کہاں تک لے جاتا ہے ؟ہر بار اس سے اس کے ارد گرد کے بارے میں اس کے ماحول کے بارے میں سوالات کیے جاتے اس سے بعض لوگوں کے بارے میں پوچھا جاتا ۔کچھ لوگوں کے بارے میں تووہ صحیح صحیح معلومات دیتارہا جب کہ کچھ کے بارے میں معلومات چھپا رکھتا رہا۔

بار بار کے رابطے کے بعد ایجنسی کا کارندہ کچھ ایسی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا جو اس نوجوان کے لیے باعث عار تھیں۔پھر کارندے نے اس نوجوان سے صحیح معلومات دینے کے لیے کہنا شروع کیا ۔نجوان نے تنگ آکر فون بند کردیا ۔اب جب بھی نوجوان اس کارندے کا فون اٹینڈ کرتا تو اسے اس کی اپنی آواز میں ہی وہ ساری شرمناک معلومات اس کی اپنی آواز میں ریکارڈ شدہ اسے سننے کو ملتیں۔

اکیلے مت کھپو بلکہ ٹیم کا حصہ بن کر کام کرو

ایک ایسے ہی نوجوان نے صہیونی ایجنٹوں کے ساتھ رابطہ استوارکیا  اس کا خیال یہ تھا کہ میں جو تعاون مجھ سےمانگا جارہا ہے وہ نہ تو اخلاقا غلط ہےاور نہ ہی شرعا مجھ پر اس کا کوئی گنا ہی ہوگا۔نہ تو یہ زناکاری ہے،نہ شراب نوشی،نہ نشہ آور اشیاء کا استعمال اور نہ کسی کو قتل کرنا،کمانڈوز کے ساتھ نکلنابلکہ یہ تعاون تو نہایت سادہ سی بات ہے۔اس کا یہ بھی خیال تھا کہ میں انہں غلط معلومات دے کر بآسانی گمراہ کرسکوں گا اور عملا بھی اس نے ایجنٹ کو غلط معلومات پہنچانی شروع کردیں اور اس کےبدلے ملنے والے مال سے اس کے دن پھرنے لگے۔

ٹھیک ہے ایجنٹس اس کی دی ہوئی ہر معلومات پر آنکھیں بند کیے ایمان نہیں لے آتے تھےتاہم ایک دن وہ حیران رہ گیا جب ایجنٹ نے اس سے خطرناک معلومات کے تبادلے کا کہا۔نوجوان نے اپنا فون بند کردیا لیکن دوسری جانب سے اسے مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں کہ ہم تمہیں نہایت دردناک انجام سے دوچار کریں گے اگر ہمارےمطالبات تسلیم نہیں کروگے تو۔نوجوان نے ہوشیاری یہ کی کہ فوری طور پر اپنے ساتھیوں اور اپنے رفقاء کو اعتماد میں لے کر انہیں اس سارے معاملے سے آگاہ کیا تاہم ساتھیوں میں بھی اس کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوچکی تھی اسے ہزاروں قسموں کے بعد کہیں قابل اعتماد گردانا گیا۔ غزہ میں سیکیورٹی ایجنسیاں صہیونی ایجنٹوں کے کئی نیٹ ورک پکڑ چکی ہیں اور عنقریب ان کے بارے میں پریس کو ساری تفصیلات جاری کردی جائیں گی۔

شجاعت و بسالت بہر صورت مطلوب ہوتی ہے

ایک ایسے ہی نوجوان جس کانام (س) تھا صہیونی ایجنٹون نے اس سے بار بار رابطہ کرنا شروع کیا۔ نوجوان نے اپناموبائل مستقلا بند کردیا اور سم نکال دی۔ تاکہ سارے رابطے ختم ہوجائیں۔ایک دن مذکورہ صہیونی ایجنٹ نے اس کے قریبی دوست سے فون پر رابطہ کیا (عربی زبان میں ،مقامی لب ولہجہ میں،اور دوستی کے پردے میں)اور اس سے کہا کہ اپنے قریب کھڑے اپنے فلاں دوست سے بات کرواؤ۔جب اس نے فون پکڑتے ہی اسے محسوس ہوا کہ یہ تو فلاں صہیونی ایجنٹ ہے جو مجھ سے بار بار فون پر رابطہ رکھتا تھا۔ایجنٹ اس سے اصرار کرنے لگا کہ اپنا فون کھولو اور مجھ سے بات کرو۔

نوجوان نے فون کھولا اور اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں صہیونی ایجنٹوں کی نگرانی میں ہوں۔اسی سے اس کی بزدلی نمایاں ہوگئی اور پھر کبھی اسے فون نہیں آیا۔ گویا کہ ایجنٹ نے بھانپ لیا تھا کہ یہ بندہ ہمارے کسی کام کا نہیں ہے اور بزدل ہے۔

اس مشکل سے کیسے نبٹا جائے


پہلے نمبر پر تو اپنے آپ میں اپنی ذات میں اعتماد پیدا کیا جائے اس طرح سے کہ اس قسم کا مشکوک رابطہ جب بھی جس سے بھی ہو وہ فی الفور متعلقہ ذمہ داروں کا اس کی اطلاع دے پوری مفصل رپورٹ لکھوادےکہ اس سے کیا واقعہ پیش آیا ہے اور کیسے کسیے پیش آیا ہےپھر یہ رپورٹ یا تو امن و  امان کے ذمہ دار ان تک پہنچائی جائے یا پھر اسلامی تحریک کے معتمد ساتھیوں کو اس سے آگاہ کیا جائے۔اسی طرح متعلقہ ذمہ دارپر بھی لازم ہے کہ پوری نرمی کے ساتھ پورے واقعے کو سمجھتے ہوئے اس کی تہہ تک پہنچے اور پوری ذمہ داری کے ساتھ اس سے نبٹے ۔

نبٹنے کے عمومی وسائل

دشمن کی اس وقت حکمت عملی ہمارے نوجوانوں کو جنس کی کشش سے متوجہ کرنے پر نہیں ہے بلکہ اس کی ساری توجہ ہمارے نوجوانوں کومال کے ذریعے کرپٹ بنانے پر ہے۔
دشمن اس وقت ہمارے نوجوانوں کے اخلاق بگاڑنے پر اتنی توجہ نہیں دے رہا جتنی کہ نوجونوں کی بھرتی پر۔

پھر یہ کہ اس کا ہدف صرف تحریک مزاحمت سے وابستہ نوجوان ہی نہیں ہیں بلکہ جو بھی ان کی طرف مائل ہو وہ اسے ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی ہمیں جوابی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی

مختصر لنک:

کاپی