پنج شنبه 01/می/2025

بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد سے فلسطین کی تازہ صورتحال پر خصوصی گفتگو

پیر 8-ستمبر-2008

      معروف سکالر اور بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد پیشے کے اعتبار سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں،لیکن وہ طویل عرصے سے پاکستان میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم نظام خلافت کے احیاء کی جد جہد کر رہے ہیں-

پیرانہ سالی اور خرابئ صحت کے باوجود وہ جواں عزم ہیں- برصغیر پاک و ہند میں وہ اسلام اوراسلامی نظام حیات کے مختلف پہلوؤں پر ہزاروں لیکچرز دے چکے ہیں اور ان کے خطبات پر مبنی متعدد کتب بھی شائع ہوچکی ہیں-

 مسجد اقصی اور سرزمین القدس پر تینوں آسمانی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار اپنا اپنا حق ملکیت جتلاتے اور مذہبی استحقاق کا دعوی کرتے ہیں-اس کی تاریخی حیثیت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے اور یہ بات کیسے ثابت کی جاسکتی ہے کہ قبلہ اول پر مسلمانوں کا دعوی مبنی بر حق ہے؟

ڈاکٹر اسرار احمد: بنیادی طور پر اگر ہم ان مذاہب ثلاثہ (اسلام، عیسائیت اور یہودیت) کا تجزیہ کریں تو ان کا  آغاز ایک ہی مذہب کی صورت میں دکھائی دیتا ہے-یہ کوئی الگ الگ تصورات نہ تھے، بلکہ ایک ہی سر چشمہ ہدایت کے سوتے سے پھوٹنے والے مذاہب ہیں- تینوں حامل دعوت اور حامل کتاب ہیں- پہلا دو ر مسجد اقصی کے حوالے سے یہودیوں کا ہے اور یہ در اصل وہ دور ہے کہ جب وہ ایک حامل دعوت امت کی صورت میں موجود تھے- مسجد اقصی کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی تھی-
 
ظاہر ہے حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبر تھے- وہی اس کے متولی تھے- اس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام اس کے متولی ہوئے ، وہ بھی اللہ کے جلیل القدر پیغمبر تھے- جب تک وہ رہے بحیثیت مسلمان انہوں نے مسجد اقصی کی تولیت سنبھالی-

بعد ازاں اس کی تولیت تیرہ سو برس تک مسلمانوں (امت محمدیہ ) کے پاس رہی اور وہی اس کے حقیقی متولی ہیں- لہذا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ تینوں مذاہب نے مسجداقصی کی تولیت کی ذمہ داری بحیثیت مسلمان سنبھالے رکھی جبکہ پہلے دو مذاہب یہودیت اور عیسائیت نے اپنی اصل شکلیں توتبدیل کرلیں مگر اپنایہ دعوی قائم رکھا کہ مسجد اقصی ان کی ہے- درمیان میں 1099 ء سے 1187ء تک یہ علاقے مسلمانوں کے کنٹرول سے باہر رہے اور اس پر عیسائیوں نے قبضہ کیے رکھا، لیکن اس میں بھی یہودی نہیں تھے-
 
یہودیوں کی مسجد اقصی کی تولیت سے بے دخلی کی تاریخ بڑی طویل ہے-ستر عیسوی میں انہیں فلسطین سے بے دخل کیاگیا اور یہ دوبارہ1917ء میں اس وقت فلسطین میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جب برطانیہ نے یہودیوں کے اثرو رسوخ  کواور بڑھانے کے لیے ’’اعلان بالفور‘‘ کیا- وگرنہ اس سے قبل اور خاص طور سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب یروشلم فتح ہوا اور مسلمانوں نے مسجد اقصی پر اسلامی علم لہرایا، تو اس وقت خلیفة المسلمین نے وہاں کے عیسائیوں کے اصرارپر معاہدہ کیا کہ اس علاقے میں یہودیوں کو آباد نہیں ہونے دیا جائے گا – عیسائیوں نے یہ معاہدہ قبول کر لیا –

تاہم یہودیوں کو القدس میں  نے جانے کا حق ضرور دیا- باقی ان کا یہ دعوی تو تھا کہ وہ مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کریں گے -یہودی 1830سال تک ارض فلسطین سے باہر رہے – حقیقت یہ ہے کہ ان کا ارض فلسطین پر کوئی حق نہ تھا- یہ تو اعلان بالفور کے ذریعے انہیں ناجائز طور پر وہاں لا کر بٹھا دیا گیا اور پوری دنیا میں منتشر یہودیوں کو اکٹھا کرنے کا موقع فراہم کیاگیا- اقبال مرحوم نے اسی لیے تو کہا تھا کہ اگر یہودیوں کا فلسطین پر کوئی حق ہو سکتا ہے تو مسلمانوں کا ہسپانیہ پر کیوں نہیں ہو سکتا   

ہے ارض فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق کیوں نہیں اہل عرب کا

کیونکہ عربوں نے تو طویل عرصے تک اسپین میں حکومت قائم کیے رکھی- سات سو برس تک مسلمانوں نے غرناطہ کو اپنی خلافت کا حصہ بنائے رکھا- قائداعظم محمد علی جناح  نے دو ٹوک انداز میں اعلان بالفور اور قیام اسرائیل کے تصور کی مخالفت کی ان کے الفاظ  ج بھی لوح تاریخ پر  پوری  ب و تاب کے ساتھ موجود ہیں کہ”Israel is illegitimate child of west  اسرائیل مغرب کی ناجائز اولاد ہے-

 قائد اعظم  کے اس موقف کو سامنے رکھیں اور امت مسلمہ کے کردار اور ذمہ داریوں کا جائزہ لیں تو ایسے لگ رہا ہے کہ امت مسلمہ اس اہم مسئلے کو سرے بھول چکی ہے- مسلمانوں نے اپنے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے اسلامی کانفرنس  تنظیم کی داغ بیل بھی ڈالی لیکن قبلہ اول اب بھی پنجہ یہود میں  ہے؟

ڈاکٹر اسرار احمد:  آپ کے اس سوال کا جواب بڑا تلخ ہے، ممکن ہے آپ پہ بھی اس کا جواب گراں گزرے، لیکن میرے نزدیک امت مسلمہ اس وقت اللہ کے عذاب کا شکار ہے- اس سے بڑھ کر عذاب کی دور حاضر میں کوئی اورصورت نہیں ہو سکتی- مسلمانوں کی پوری دنیا میں تعداد اور اسرائیل کی کل  آبادی کا باہم تقابل کریں تو اتنی قلیل تعداد کے سامنے اتنی کثرت کے ڈھیر ہونے کی بات سن کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں- خود بنی اسرائیل اور اولاد یعقوب علیہ السلام آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کی طرف سے حامل دعوت امت تھی اور انہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی تھی-قر ن میں اس کا تذکرہ کئی مقامات پر موجود ہے-

دو دفعہ تو صرف سورہ بقرہ میں اس کا تذکرہ ہے- چھٹے رکوع کی پہلی آیت اور دسویں رکوع کی پہلی  آیت میں کہا کہ یا بنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العالمین-’’ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تمہیں انعام کے طورپر دی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت بخشی ‘‘ لیکن یہ فضیلت ان سے کیوں چھین لی گئی اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو کیوں کھڑا کیاجاتار ہا-
 
اس لیے کہ ان  پرجو بھاری ذمہ داری عاید کی گئی تھی وہ انہوں نے نہیں نبھائی- بجائے اپنے کردار اور عمل کے وہ لوگ خرافات میں الجھ کر رہ گئے – اللہ کی صحیح ترجمانی ، اس کی گواہی دینے اور اس کی دعوت کی تبلیغ سے راہ فرار اختیارکی اور انہیں جوفضیلت اللہ تعالی نے عطا کی تھی ،وہ نہ صرف چھین لی گئی بلکہ ان پر دو قسم کے عذاب نازل کردیے- گوکہ انہیں اپنے اللہ کے پسندیدہ ہونے پر بڑا غرور اور ناز تھا-

   یہی کیفیت مسلمانوں کی بھی ہے،مسلمانوں کو بھی اللہ تعالی نے حامل دعوت امت کے طور اٹھایا، اب ان کا کرداربھی باقی امتوں سے  بدتر ہو چکا ہے- کفار پر اللہ تعالی نے راہ حق سے منحرف ہونے کے بعد دو قسم کے عذاب مسلط کیے- سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ ’’ضربت علیھم الذلہ والمسکنة‘‘ کہ ان پر کمزوری اور ذلت مسلط کردی گئی – اور دوسرا عذاب ’’ وباؤ بغضب من اللہ’’ وہ اللہ کے غضب کا  شکار ہوئے‘‘- یہ جو قر ن ان پر عذاب کی تفصیل بیان کرتا ہے، اس کی بھی پوری ایک تاریخ ہے-

بنی اسرائیل پر پہلے  شوریوں نے حملہ کیا اور 700 قبل مسیح میں کنگ آف بابلیون ،شاہ بابل بخت نصر نے یہودیوں کی درگت بنائی-ہیکل سلیمانی کو مکمل طورپر تباہ کردیا گیا، یہودیوں کو گردو نواح کے علاقوں میں منتشر کردیا اور ایک بڑی تعداد کو قتل و گرفتار کر کے سزائیں دی گئیں-
 
یہی وجہ ہے کہ یہودی اسےyAge of captivity  ’’دور اسیری ‘‘قرار دیتے ہیں‘‘ پھر ان لوگوں نے حضرت عزیر کے کہنے پر توبہ کی اور ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا – پھر منحرف ہو گئے – پھر ان پر ایک عذاب ٹائٹس کی صورت میں آیااور انہیں دوبارہ تباہ کو برباد کردیا گیا – اس کے بعد یروشلم میں ان کے ہیکل کی ایک دیوار کا کچھ حصہ رہ گیا تھا جسے وہ ایک نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں- آج بھی اس کے پاس  کر گریہ زاری کرتے ہیں- نزول قر ن کے بعد بھی ان کی ذلت کا سلسلہ جاری رہا – جرمن ہٹلر ان پر ایک تیسرے عذاب کی صورت میں مسلط ہوا اور بقول ان کے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیاگیا –

اب یہی دونوں عذاب مسلمانوں پر مسلط ہیں، وہی’’ ذلت‘‘ اور’’ مسکنت‘‘ ان پر بھی حاوی ہے- اگرچہ تعداد میں ڈیڑھ ارب ہیں لیکن ان کی حیثیت’’ڈیڑھ ارب زیرو‘‘ کی ہے- اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا ہے – ہماری پالیسیاں کوئی اور بناتا ہے- ہماری جنگ اور صلح کے فیصلے کسی اور کے ہاتھ میں ہیں- کس چیز میں ہمارا مفاد ہے اور کون سے چیز ہمارے لیے نقصان دہ ہے ،یہ فیصلہ ہم نہیں بلکہ ہمارے دشمن کر رہے ہیں اور اہم محض مہرے  ہیں-
 
ضربت علیھیم لذلة والمسکنة- اس وقت ہم پر وہی ذلت اور مسکنت مسلط ہو چکی ہے- تیس کروڑ کی تعداد میں تو صرف عرب ہیں اور سارے کے سارے عیش پرستی کا  شکار ہیں- وگرنہ کیا وجہ ہے اسرائیل چند لاکھ آبادی والا ملک ان کے درمیان اس طرح دندناتا پھرتا- مسلمانوں کو توقع تھی کہ شایدعرب ممالک کوئی انقلاب برپا کردیں- وہ کیسے کریں گے؟

ان کی اپنی پالیسیاں ان کے ہاتھ میں نہیں اور وہ خود کسی اور کے اشاروں پر ناچتے ہیں- سب کے سب امریکہ کے کاسہ لیس اور اشارۂ ابرو کے پابند ہیں- یہ سب کچھ ہماری ذلت اور مسکنت کی وجہ سے ہے کہ فلسطین، عراق، کشمیر، افغانستان، بوسنیا، چیچنیا، اراکان، قبرص، کوسوو، فلپائن اس وقت  گ اور خون کی وادی سے گزر رہے ہیں اور ہم یہ گلہ کرتے ہیں کہ  

رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے بے چارے مسلمانوں پر

دراصل یہ سب کچھ ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے- جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے نہ تو او ئی سی کچھ کر سکتی ہے اور نہ ہی انفرادی طور پر کوئی ملک کوئی کردار ادا کرسکتا ہے-

اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے حکو متی سطح پر  مختلف سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، اس ضمن میں پس چلمن کچھ کوششیں بھی ہوئیں-  آپ کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر اسراراحمد: اس بارے میں میرا تجزیہ یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے فیصلے ہمارے اپنے نہیں ہوتے- جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہماری پالیسیاں کسی دوسری طاقت کے ہاتھ میں ہیں- اسی طرح اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا معاملہ بھی ہمارے نہیں بلکہ کسی اور کے پاس ہے- ہم تو صرف اشارۂ ابرو کے پابند ہیں- جیسا کہا جو کہا من و عن تسلیم کر لیا- مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 16 ستمبر2001ء کو سابق پاکستانی کمانڈو صدر جنرل مشرف نے علماء و مشائخ کا ایک وفد بلایا، جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی –

میں بالکل ان کے قریب والی کرسی پر بیٹھا تھا- شام کے وقت شروع ہونے والی اس گفتگو میں مختلف طبقہ فکر کے سو کے قریب علماء شامل تھے-سب نے باری باری اپنی  آراء کااظہار کیا اور  آخر میں میرا نمبر آیا- اس وقت میرے اعصاب قابو میں نہ تھے اور چہرے پر غصے کی کیفیت نمایاں تھی- میں نے کھل کر کہا کہ’’ صدر صاحب اس کے بعد  آپ کی باری بھی آنے والی ہے یہ اللہ تعالی کے خلاف بغاوت ہوگی‘‘- کیونکہ سانحہ نائن الیون کے پس پردہ یہودی لابی کارفرما ہے اوروہ اپنے مخصوص مقاصد کے تحت یہ سارا ڈرامہ کر رہی ہے- میرے غصے کی کیفیت پرویز مشرف کو بعد تک یاد رہی اور انہوں نے کسی دوسری نشست میں بھی کہا کہ’’ ڈاکٹر صاحب اس وقت نہایت غصے میں تھے‘‘-

عالمی حالات میں ایٹمی پاکستان کا کیاکردار ہونا چاہیے ؟

ڈاکٹراسرار احمد: میرا تو اس بارے میں ہمیشہ دوٹوک اورا ٹل موقف رہا ہے کہ جب تک پاکستان میں سوشل جسٹس،سماجی انصاف کا صحیح نظام نافذ نہیں ہو جاتا اور اسلام اپنی صحیح پوزیشن میں نافذ نہیں ہوتاتب تک بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کا کردار صفر رہے گا- پاکستان کی موجودہ صورت حال میرے لیے نہایت باعث تشویش ہوگئی تھی- خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور پھر پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات نے قنوطیت کی کیفیت طاری کر دی تھی،لیکن گزشتہ برس سے پاکستان میں اٹھنے والی تبدیلیوں نے امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے-

ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ حالات جو بھی ہوں اب وقت اس آخر اور فیصلہ کن جنگ کا  چکا ہے جس کے بارے میں حضور  نے واضح پیشین گوئی فرمائی تھی- وہ یہ کہ  آخری جنگ کا آغاز عالم عرب سے ہوگا اور اس میں کروڑوں لوگ قتل کر دیے جائیں گے انہوں نے فرمایا کہ’’ میری امت پر بھی وہ سارے حالات وارد ہوں گے جو سابقہ امتوں پر  آچکے ہوں گے،جیسا کہ ایک جوتی دوسری جوتی سے مماثل ہوتی ہے میری امت بھی سابقہ امتوں کی اسی طرح مماثل بن جائے گی‘‘- ایسے میں مجھے یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ وقت اب آ چکا ہے-
 
سابقہ امتوں پر بیرونی طاقتیں ٹوٹ پڑتیں اور انہیں ملیا میٹ کر دیا جاتا – ہم پر ایک حملہ تاتاریوں نے کیااور ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دی – پھر مشرقی یورپ سے برطانیہ ، ہالینڈ او ر فرانس جیسے ممالک نے جارحیت کی اورہم اس کا شکار ہوئے اور بالکل ایسے ہی حالات کا شکار رہے جیسے ماضی میں دوسرے قومیں رہ چکی ہیں- پھر جس طرح یہودیوں کا ہولو کاسٹ ہوا جس میں لاکھوں یہو دیوں کو بقول ان کے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا، اب وہی ہولو کاسٹ عربوں کا ہو گا-

اللہ کے عذاب کا پہلا کوڑا عربوں پر برسے گا اور روایات میں  تا ہے کہ اس  آخری جنگ میں اتنا قتل عام ہوگااگر ایک شخص کے سو بیٹے ہیں توننانوے قتل ہو جائیں گے اور صرف ایک بچے گا- ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ اتنی لاشیں چاروں طرف پھیل جائیں گی کہ خدا کی پناہ- ایک نفاست پسند پرندہ جو مردار پر نہیں بیٹھنا چاہتا وہ اڑتا چلا جائے گا اڑتا چلا جائے گا یہاں تک کہ تھک ہار کر جب اس کے  بازو شل ہو جائیں گے تو وہ ان لاشوں ہی پر گر پڑے گا‘‘- عرب چونکہ اس اعتبار سے بھی اولین حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ قرآن کی زبان کو سمجھتے ہیں اور حقیقی حامل قرآن ہیں- وہ امت کا نیو کلئس اورمرکزہ ہیں باقی امت کی حیثیت الیکڑان کی ہے-

عرب کے بعد دوسرے نمبر پر پاکستان  تا ہے، کیونکہ اس کی بنیاد ڈالتے وقت ہم نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ خدایا ہم ملک تیرے نام پر حاصل کرر ہے ہیں- ہم نے بھی اللہ کو گواہ بنایا تھا کہ ہم اس ملک میں اسلام کا سماجی انصاف کا نظام قانون، قرآن نافذ کریں گے، نیز اس نوزائیدہ مملکت کو دنیا میں اسلام کا صحیح پلیٹ فارم بنائیں گے- لیکن ہم نے قدم قدم پر بدعہدی کی- اس لیے عذاب کا دوسرا کوڑا پاکستان پر برسے گا، اور میرا خیال ہے کہ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ اسی بد عہدی کی پاداش ہے- اس وقت ہماری بقاء کا راز صرف اجتماعی توبہ میں ہے- ایک بار پھر اللہ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے- اگر ایسا نہ کیاگیا تو نہ جانے فطرت ہمارے ساتھ کیا کرے گی اور ہمیں مزید کن کن ذلتوں سے گزرنا پڑے گا –

کیا ان سارے حالات میں جب کہ امت مسلمہ کچھ کر گزرنے سے عاجز ہے، مستقبل کا منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے ، کیا’گریٹر اسرائیل ‘‘کامنصوبہ زیادہ  سان ہو جائے گا ؟

ڈاکٹر اسرار احمد: اسرائیل کے ’’عظیم تر اسرائیل ‘‘تصور میں ایک طرف شمالی حجاز مدینہ منورہ تک شامل ہے – دوسری جانب عراق، شام، ترکی کا کچھ حصہ، پورا فلسطین، مصر ایک بڑے حصے سمیت اسرائیل میں شامل کیا جانا ہے- احادیث کی رو سے یہ تو نظر آتا ہے کہ’’ گریٹر اسرائیل ‘‘ قائم ہو گا – جب یہ قائم ہو جائے گا تو پھر حالات میں ایک نیا موڑ آئے گا وہ حضرت مہدی کا ظہور ہوگا – پھر یہودی دجال کھڑا ہو گا اور امام مہدی  اسے قتل کریں گے- امام مہدی کی نصرت اور مدد کے لیے لشکر مشرقی ممالک سے  ئے گا – اب مشرقی ممالک میں ایران، افغانستان اور پاکستان و ہند سبھی شامل ہیں- احادیث میں آتا ہے کہ حضرت امام مہدی کے ساتھ ان کے لشکر میں 80 علم ہوں گے اور ہر علم کے نیچے12 ہزار سپاہ ہو گی- گویا ان کے لشکر کی کل تعداد ساڑھے نو لاکھ ہو گی-
یہی بات مفکر اسلام حضرت علامہ محمد اقبال نے یوں کی تھی 

خضر وقت ازخلوت دشت حجاز  ید بروں
کارواں زیں وادئ دور ودراز  ید بروں

یعنی جب وقت کے مجدد کا ظہور دشت حجاز میں ہو گا تو امدادی قافلہ(یعنی فوجیں) اس دور دراز کی وادی یعنی وادئ سندھ سے جائیں گی- وادئ سندھ میں موجودہ پورا پاکستان اور کوہ ہندو کش کی مشرقی ڈھلوانوں تک کا علاقہ شامل ہے- اس لیے وہاں کے سارے دریا بھی دریائے سندھ میں شامل ہوتے ہیں-

اسی دوران نزول مسیح ہو گا- عیسائیوں کا خیال ہے کہ ایک پتھر جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تاج پوشی کی گئی تھی، بعد میں ٹائٹس کے دور میں اسے آئرلینڈ منتقل کیا گیا جہاں ہر بادشاہ کی تاج پوشی اسی پتھر پر ہوتی رہی- اب اسے ایک کرسی میں جوڑ ا گیا ہے- ان کا کہنا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی پتھر پر اتریں گے یعنی اس کرسی پر انہیں بٹھایا جا ئے گا – عیسائی صلیب اٹھائے پھریں گے تو عیسی علیہ السلام انہیں کوسیں گے اور کہیں گے کم بختو! یہ تم نے کیا اٹھا رکھا ہے، میں تو زندہ ہوں مجھے سولی پر نہیں چڑھایا گیا بلکہ زندہ اٹھایا گیا تھا- اس طرح عیسائی صلیب توڑ دیں گے اوردائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں گے- جنگ میں اسی فیصد یہودی قتل ہو جائیں گے ،جو باقی رہ جائیں گے وہ بھی اسلام قبول کر لیں گے-

 

 

مختصر لنک:

کاپی