پنج شنبه 01/می/2025

امریکی کب بیدار ہوں گے ؟

منگل 7-اکتوبر-2008

مستقبل کے تاریخ نویس جب اس کا سراغ لگائیں گے کہ وہ کون سے اسباب تھے جو امریکی استعمار کے زوال کا سبب بنے ، تو وہ سب سے پہلے اس حقیقت کی نشاندہی کریں گے کہ اس میں ’’اسرائیلی کردار ‘‘ بڑا موثر رہاتھا-

یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ لا تعداد صہیونی لابیوں اور پریشر گروپوں نے امریکی سیاست ،ذرائع ابلاغ اور مالیاتی اداروں پر کم و بیش کنٹرول حاصل کررکھاہے – صہیونیوں نے کس طرح امریکی زندگی کے تمام شعبوں میں نفوذ کررکھاہے یا اس پر اثرانداز ہیں- امریکہ میں صہیونی کردار کے موضوع پر کام کرنے والے لوگ اس حقیقت سے خوب  آگاہ ہیں اور اس بارے میں معلومات بآسانی مل سکتی ہیں-

ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں کے چینل پروگراموں پر انٹرویو دینے والے سینیٹروں اور اراکین کانگریس سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ وہ ’’حقیقت کو حقیقی انداز میں بیان کرسکیں گے ‘‘اور صہیونی لابی کے کردار پر روشنی ڈال سکیں گے تو عجیب وغریب معلومات دستیاب ہوں گی –

1970ء کے عشرے کی بات ہے امریکی یہودی دانشور الزیڈللی نیتھل نے یہودی لابی کے بارے میں انتہائی اہم کتاب تحریر کی جس میں بتایا گیاتھا کہ یہودی لابی موجودہ دور کے امریکہ کو کنٹرول کرتی ہے اس کتاب The Zionist Connection :What Price Pealeکو میری نظر میں بیسویں صدی کی انتہائی اہم کتابوں میں سے ایک ہونے کا شرف حاصل ہے –

للی نیتھل نے اپنی کتاب میں بیان کیاہے کہ امریکی سیاسی زندگی اور اداروں پر صہیونی کنٹرول بہت گہرا ہے ، ماضی میں جس قدر گرفت رہی ہے  آج اس سے کہیں زیادہ ہے، اور اس میں بھی شبہہ نہیں ہے کہ موجودہ ، اسرائیل یوج، انتظامیہ کا زوال بھی صہیونیوں کے ہاتھوں لکھاہوا ہے کہ جو امریکی طاقت اور وسائل و ذرائع کا استعمال صرف اور صرف ، مشرق وسطی میں اور عالمی سطح پر صہیونی اہداف کے حصول کے لیے کررہے ہیں- 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے زوال کے بعد اسرائیلی سفارت کاروں نے مشرق وسطی اور مشرقی یورپ کے حکمرانوں کو بتایا کہ ’’ہم امریکی حکومت پر کنٹرول کرتے ہیں، نیز یہ کہ امریکی دل و دماغ تک پہنچنے کی شاہراہ یروشلم سے گزرتی ہے –

 آپ میرے جملے کو ’’یہوددشمن ‘‘ قرار نہ دیں لیکن ان صہیونی راہنماؤں اور ربیوں کی بات پر کان ضرور دھریں جو اسرائیل میں رہتے ہیں اور بارہا ان خیالات کا اظہار کرچکے ہیں -اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں نے امریکہ کو تباہ کرنے کے جو منصوبے تیار کئے ہیں ان میں نمایاں ترین منصوبہ عراق پر قبضہ ہے – اس غیر ضروری اور تباہ کن جنگ کا تخم اور منصوبہ اسرائیل نے تیار کیاتھااور اس پر عمل درآمد کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں بیٹھے عموماً یہودی اینوکونز ، کو استعمال کیاگیا-

اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس جنگ میں نہ صرف دس لاکھ عراقی مارے جا چکے ہیں بلکہ کئی ہزار امریکی فوجی بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں- اس جنگ نے امریکہ کو اقتصادی طور پر تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور امریکی کرنسی ڈالر کو مسلسل ایسے دھچکے پہنچ رہے ہیں کہ اس کو پلٹنا مشکل ہوگا-
یہ کہنے کی حاجت نہیں ہے کہ امریکہ کو جس بڑے خلفشار کا سامنا درپیش ہے اور اسرائیل کی جانب سے تجویز کردہ جنگیں ، جو اسرائیل دنیا بھر میں لڑ رہاہے، ان کا  پس میں گہرا رابطہ ہے –
 
امریکی راہنما اور سیاستدان اس کا کھلم کھلا اعتراف نہ کریں گے ،لیکن سوچنے سمجھنے والے امریکی اس حقیقت کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیلی وجود اور امریکہ کو درپیش موجودہ اقتصادی بحران کا گہرا تعلق ہے – اگر آپ کو اب بھی اس بارے میں کچھ شبہہ ہے تو واشنگٹن میں ان لوگوں کی بات پر توجہ دیں کہ جو جرات اظہار کا سلیقہ رکھتے ہیں ، وہ  پ کو ایسی ایسی باتیں بتائیں گے کہ صہیونی کنٹرول میں چلنے والے ذرائع ابلاغ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں- فاکس نیوز ، سی این این ،اے بی سی ، سی بی ایس ، این بی سی ، نیویارک ٹائمز ،واشنگٹن پوسٹ ،لاس اینجلس ٹائمز، وال سٹریٹ ، جرنل ٹائم ،نیوزویک وغیرہ وغیرہ -حقیقت میں امریکی عوام کو جو اب دہ نہیں ہیں، وہ صہیونی لابی کو جواب دہ ہیں کیونکہ ان نشریاتی اداروں کے کرتادھرتا ، لابی کا حکم ماننے سے انکار کریں گے تو وہ فوری طور پر اپنے  آپ کو ڈس مس پائیں گے-

اسرائیل نے امریکہ کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں ڈوبنے پر مجبور کردیا ہے ، یہ حقیقت میں اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف ایک بے معنی جنگ ہے اور ان بے نام دشمنوں کا نام ’’مسلمان ‘‘ ہے جو فلسطینی مسئلہ کے حل کے حامی ہیں اور اسرائیل سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ فلسطین کی عرب سرزمین خالی کردے – عراق جنگ اور افغان جنگ کی طرح دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ بھی اسرائیل کے ایماء پر لڑی جا رہی ہے – حتمی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں اور امریکیوں کے درمیان کوئی حقیقی مسئلہ موجود ہی نہیں ہے-

ہمیں بتایا جاتاہے کہ 11/9کا واقعہ چند دہشت گردوں نے کیاتھا جن کے نام مسلمانوں جیسے تھے اور جن کا غلطی سے خیال تھا کہ وہ اس طریقے سے فلسطین کی خدمت کررہے ہیں اور بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرکے اسلام کی خدمت کا اعزاز حاصل کررہے ہیں- اگر یہ لوگ حقیقی طور پر اس حادثے کاموجب تھے ایسی شہادتوں میں اضافہ ہوتا جارہاہے کہ جس سے ایماندار لوگ امریکی حکومت کے بیان کے بارے میں شک و شبہہ کا اظہار کررہے ہیں )تب بھی ان کی تعداد مسلم دنیا کی آبادی کا انتہائی حقیرحصہ ہے-

مسلمان عمومی طور پر امریکہ اور امریکی عوام سے نفرت نہیں کرتے ان لوگوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے کہ جو دوسرے لوگوں سے نفرت نہیں کرتے چاہے ان کا مذہب کچھ بھی ہو اور ان کا کلچر کچھ بھی ہو، پے درپے پہنچنے والے صدموں کے سبب مظلوم لوگ ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، میری رائے غلط بھی ہوسکتی ہے لیکن میرا خیال یہی ہے کہ فلسطینیوں اور عربوں میں عمومی طور پر امریکی عوام کے خلاف نفرت نہیں پائی جاتی – صہیونی یہودی جن میں سے چند اب امریکہ میں اسلام مخالف ڈی وی ڈی تقسیم کرتے پائے جاتے ہیں تاکہ امریکیوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی نفرت کوکوٹ کوٹ کر بھردیا جائے اور اس سے اسرائیلی مقاصد پورے ہوجائیں، وہ اس روز سے خوفزدہ ہیں کہ جب امریکیوں کو اسرائیل کی حقیقت کے بارے میں پتہ چلے گا اور وہ جان جائیں گے کہ جس ملک کو وہ اس قدر عزیز رکھتے رہے ہیں اس کا اصل چہرہ کیا ہے –

حال ہی میں امریکہ نے سات سو بلین ڈالرکی رقم ایک مالیاتی ادارے کے لیے منظور کی ہے تاکہ وہ دیوالیہ ہونے سے بچ سکے- مجھے خدشہ ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ کو اور بھی بری خبریں سننے کو ملیں گی اگر امریکہ صہیونی ڈاکو کھرب پتیوں سے نجات حاصل نہیں کرلیتا کہ جو امریکہ کے مالیاتی اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں – اگر امریکہ فیصلہ کرتاہے کہ وہ اسرائیلی ہدایات پر عمل پیرا ہوگا اور کسی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف جنگ چھیڑ دیتاہے (مثلاً ایران ) تو امریکی معیشت کو جس قدر نقصان پہنچے گا اس کااندازہ لگانا مشکل ہے-
 
چند برس پہلے کا ذکر ہے کہ یہ خبر اخبارات میں  ئی کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم جو مصدقہ جنگی مجرم ہے نے شمعون پیریز کو جو اس وقت اسرائیلی وزیرخارجہ تھا ، کابینہ کے اجلاس کے دوران بتایا کہ ’’ہم کیلی فورنیا سے نیویارک تک امریکہ کو کنٹرول کرتے ہیں اور احمق امریکی اس بات سے  آگاہ ہیں‘‘- اگرچہ مجھے اس بیان کے حقیقی ہونے کے بارے میں چند تحفظات ہیں، یہ واضح حقیقت ہے کہ امریکی سیاستدان بشمول صدارتی امیدواران باراک اوبامہ اور مک کین سمیت دیگر امیدواران کے بیانات ثابت کرتے ہیں کہ یہ بیان حقیقی ہے-

 آج اسرائیل کی کوشش ہے کہ مشرق وسطی میں نسلی تطہیر کا کام مکمل کرلے اور اس کے لیے امریکی سرمائے اور امریکی قوت استعمال کرلے- اسرائیل مسلم دنیا سے اس وقت تک لڑتا رہے گا کہ جب تک امریکہ کے پاس اپنا  خری ڈالر اور اپنا  آخری سپاہی موجود ہے – وقت آچکاہے کہ امریکی خواب خرگوش سے بیدار ہوں اور صہیونیوں کے تسلط سے اپنے وطن کوآ زاد کرائیں کیونکہ ان کا مستقبل داؤ پر لگا ہواہے-

مختصر لنک:

کاپی