ترکی کی ایک اعلیٰ عدالت نے اسلامی جڑیں رکھنے والی حکمران جماعت اے کے پارٹی کو کالعدم قرارنہ دینے کے فیصلہ کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم رجب طیب اردگان اور پارٹی کے دوسرے اہم ارکان سیکولر مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں.
ترکی کی آئینی عدالت نے قرار دیاہے کہ ”یہ بات تسلیم کرنے کی گنجائش موجود ہے کہ پارٹی نے سیکولر مخالف سرگرمیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے اور اس نے ترک آئین کی بعض دفعات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے”.اعلیٰ عدالت نے یہ بات اے کے پارٹی کی جانب سے جامعات میں ہیڈاسکارف اوڑھنے پر عاید پابندی کے خاتمہ کی کوشش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی ہے.
عدالت نے پارٹی کو ریاست کی جانب سے ملنے والی ڈیڑھ کروڑڈالرز کی امداد بھی سیکولراصولوں کی خلاف ورزی پر بند کر دی ہے تاہم اس نے پارٹی پر ملک میں اسلامی حکمرانی کے الزام میں پابندی عاید نہیں کی.
عدالت نے غیر متوقع طور پروزیراعظم رجب طیب اردگان پر کڑی تنقید کی ہے جورائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق ترکی کے سب سے مقبول سیاستدان ہیں اور عدالت کی تنقید سے ترکی میں ایک ایسے وقت میں نئی کشیدگی جنم لے سکتی ہے جب حکومت عالمی مالیاتی بحران کے اثرات سے نمٹنے کے لئے کوشاں ہے.
ترکی کی آئینی عدالت نے کہا ہے کہ وزیر تعلیم حسین چیلک بھی دوسروں کے علاوہ سیکولر مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں.تاہم جمعہ کو سرکاری گزٹ میں شائع ہونے فیصلہ کے مطابق عدالت نے قراردیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ انصاف اور ترقی پارٹی تشدد کے ذریعے سیکولر نظام کو تبدیل کرنا چاہتی ہے.
لیکن عدالت نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جامعات میں اسلامی طرز کے ہیڈاسکارف پر عاید پابندی ختم کرنے کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نے سیکولر قوانین کی خلاف ورزی کی ہے.
اے کے پارٹی 2002ء میں پہلی مرتبہ بر سراقتدار آئی تھی اور اس وقت سے وہ ترکی کی طاقتورسیکولرسٹ اسٹیبلشمنٹ سے نبردآزماہے جس میں جج اور فوجی جرنیل شامل ہیں.
سیکولرسٹوں کا کہنا ہے کہ جماعت ملکی آئین کے برعکس مذہب کو عوامی زندگی میں واپس لانا چاہتی ہے.اے کے پارٹی نے گذشتہ سال کے عام انتخابات میں کلین سویپ کامیابی حاصل کی تھی اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی اسلامی ایجنڈا نہیں ہے.