اولمرٹ کے بیانات مجھے ان سابق امریکی صدر اور سیاست دانوں کے بیانات کی یاددلاتے ہیں جوانہوں نے ایسے وقت میں دےئے جب وہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اسرائیل نواز لابی کے دباؤ سے باہر آچکے تھے- اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے-
کئی دہائیوں کی جدوجہد اور لڑائی نتائج دینے میں ناکام رہی 1948ء کے بعد سے فلسطینیوں کا اپنی سرزمین پر کنٹرول بتدریج ختم اور مستقبل تاریک ہوتا چلاگیا- فلسطینیوں کی آزادوطن کے لئے جدوجہد اس دوران کئی مراحل سے گزری ، مسلح جدوجہد سے ڈپلومیسی اور مذاکرات کے عمل کے دوران جتنے بھی ادوار آئے ان میں عدم تشدد کی پالیسی رکھنے والی انتفاضہ سے پرتشدد سوچ والی انتفاضہ دیکھنے کو ملی-
آج فلسطینی سوال کررہے ہیں کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا ڈھانچہ کیسا ہوگا- پی ایل او نے قیام کے بعد اپنے چارٹر میں واضح کردیا تھا کہ فلسطین ایک سیکولر ریاست ہوگی،مگر 1988ء یاسرعرفات کی طرف سے فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد فلسطینیوں نے قوم پرستی ترک کرکے مسئلے کا دوریاستی حل قبول کیا تاہم اسرائیل کی طرف سے نئی یہودی بستیوں کے قیام کے نہ رکنے والے سلسلے نے دوریاستی حل کے تصور کو عملاً ناقابل عمل بنادیا-
اگلے چند ماہ میں فلسطینیوں کو نئی حکمت عملی کے انتخاب کے علاوہ درست سمت کا بھی تعین کرنا ہے- حماس نے 9جنوری2009ء کو صدرمحمودعباس کا آخری دن قرار دے رکھا ہے- فلسطین کے عبوری آئین کے مطابق صدارتی مدت کے خاتمے یا موت کی صورت میں اسمبلی سپیکر 60روز کے لئے عبوری صدر کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور صدارتی انتخاب کی تیاری اسی دوران کی جاتی ہے- فلسطین میں ایک اسرائیلی فوجی کو حراست میں لئے جانے کے بعد سے سپیکر پارلیمنٹ عزیزدویک کا اسرائیلیوں نے یرغمال بنارکھا ہے- حماس اور دوسرے فلسطینی رہنما اسرائیلی فوجی کے بدلے عزیزدویک اور دوسرے فلسطینیوں کی رہائی کا تقاضا کررہے ہیں-
صدرمحمودعباس اور پارلیمنٹ کی مدت کے خاتمے سے پیدا ہونے والے مسئلے کے علاوہ بھی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اس تنازع کی نوعیت اپنی جگہ اہم ہے- اس مدت کے دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے- سوائے اس کے وقت سے پہلے صدارتی وپارلیمانی انتخابات کے انعقاد پر سمجھوتہ طے پا جائے وگرنہ اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا- حماس کے غیر مشروط تعاون کے بغیر وقت سے پہلے انتخابات میں اکثریت یاصدر کے منتخب ہونے کا امکان نظر نہیں آئے گا،وہ فوری انتخابات کے لئے رضا مند نہیں ہوگی-
ایک رپورٹ کے مطابق قاہرہ میں حماس نے محمودعباس کی صدارتی مدت میں توسیع کی حمایت کرنے سے انکار کردیا ہے- فلسطینیوں کی اکثریت اس وقت انتخابات کے موضوع کو ہی سرے سے غیر منطقی قراردیتی ہے- ان کی نظر میں غزہ کا محاصرہ ،مغربی کنارے پر قبضہ اور فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کا لامنتاہی سلسلہ اس وقت زیادہ بڑے موضوع ہیں- فلسطین کے ایک سٹڈی گروپ کے سروے کے مطابق فلسطینیوں کی اکثریت حکمت عملی میں تبدیلی کی خواہاں ہے- ان کی نظر میں امن مذاکرات اور ریاستی ڈھانچے ک تشکیل جیسے پرکشش الفاظ حالات کوجوں کا توں رکھنے کا باعث ہیں جس میں فلسطینی ردعمل کا اظہار توکر سکتے ہیں مگر عملی اقدامات نہیں کرسکتے-
ان کی نظر میں حق خود ارادیت کے ساتھ ساتھ مزاحمت کا محدود عمل جاری رہنا چاہیے- ان کی نظر میں قومی ڈھانچے کی تشکیل اور امن مذاکرات پر وقت اور توانائی ضائع کرنے کے بجائے مکمل خود مختاری کی پالیسی بہتر نتائج دے سکتی ہے- مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی قومی اتحاد کو حکمت عملی کا اہم ترین نقطہ قراردیتے ہیں اور ان کی نظر میں غزہ اور مغربی کنارے کے علاوہ دنیا بھر کے فلسطینیوں کو متفقہ حکمت عملی اور مقاصد طے کرنا ہوں گے- سروے کے مطابق اسرائیل اور دوسرے فریقین پردو ریاستی حل کے منفی مضمرات واضح کردئیے جانے چاہیں- انہیں کوئی متبادل حل قبول نہیں –
ان کی نظر میں واحد فلسطینی ریاست کی پالیسی ہی مسئلے کا حل ہے اور موزوں وقت پر فلسطینی اتھارٹی توڑ کر فلسطینیوں کو موقع دیا جائے کہ وہ علاقے کی قانونی ،اخلاقی اور معاشی ذمہ داری سنبھالیں تاکہ اس کے ناجائز قبضے کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہو جائے- ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ حکمت عملی کے وہ ذرائع اختیار کئے جائیں جن سے اسرائیل کے لئے اس کے آپشن انتہائی گراں ہوکر رہ جائیں-
سٹڈی گروپ کی تجاویز کو فلسطینیوں میں زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی- اس میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ اس 80 صفحات پر مشتمل دستاویز میں ترجیحات بڑی واضح ہیں،منطقی انداز میں سمت کا تعین کردیا گیا ہے جس کی فلسطینیوں کو ضرورت ہے اور کئی دہائی پرانے ردعمل کی پالیسیوں سے نکل کروہ ایک واضح سمت کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں-