برطانوی اخبار”دی گارڈین” نے غزہ میں جاری جنگ کے دوران عالمی نظام کو نظرانداز کرنےکے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب اسرائیلی ریاست مقبوضہ مغربی کنارے پرقبضہ کر کے اپنے آپ کو اور دوسروں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔د غزہ میں جاری جنگ میں عالمیقوانین اور نظام کےسقوط کاباعث بنے گی۔
برطانوی اخبار نےجمعرات کو اپنے اداریے میں کہا کہ "اسرائیل کی طرف سے ہیلی کاپٹروں، ڈرونز اورزمینی افواج کے حملوں کے دو دن بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداداب بھی بڑھ رہی ہے”۔
اخبار نے لکھا کہ”جولائی میں، قانون اور سیاست کے درمیان لائن واضح طور پر نظر آئی جب اقوام متحدہکی اعلیٰ ترین عدالت ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس‘ نے قرار دیا کہ مشرقی یروشلم اور غزہکی پٹی سمیت مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اسےہرصورت ختم ہونا چاہیے‘‘۔
اس وقت اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے عدالت کے فیصلے کے جواب میں کہا کہ یہ "جھوٹ کا فیصلہ”ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ نیتن یاھو جانتا ہے کہ طاقت بندوق کے بیرل سے بہتی ہے”۔
دریں اثنا مقبوضہعلاقوں میں اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات مزید سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر اس احساس کی وجہ سے کیے جاتے ہیں کہ اسرائیلکسی کے سامنے جواب دہی ،احتساب یا ذمہ داری سے مستثنیٰ ہے۔اسے حق ہے وہ جو چاہےکرے۔
دی گارڈین نے رپورٹکیا کہ "غزہ کی جنگ عالمی قوانین اور جنگی ضابطوں پر مبنی بین الاقوامی نظام کےلیے ایک اہم نقطہ بن گئی ہے۔ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے دیگر مقبوضہ علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔ اسرائیلکا کہنا ہے کہ اسے ایران سے آنے والے ہتھیاروں کے استعمال سے ہونے والے حملوں سے خودکو بچانے کے لیے کارروائی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج عام شہریوںپر فضائی بمباری کرنا لوگوں کو دہشت زدہ کرنے اور ان کے قتل عام کی پالیسی پر عملپیرا ہے۔
اس نے کہاکہ سنہ 2020ء اور اکتوبر 2023ء کے درمیان فضائیحملوں کے نتیجے میں خطے میں چھ فلسطینی مارے گئےتھے۔ اس ہفتے اقوام متحدہ نے اعلانکیا کہ اکتوبر 2023 سے اب تک مغربی کنارے میں فضائی حملوں کے نتیجے میں 136 فلسطینیشہید ہو چکے ہیں۔
اخبار نے تبصرہ کرتےہوئے کہاکہ "یہ واضح ہے کہ یہ تعداد غزہ میں مرنے والے چالیس ہزار فلسطینیوں کےمقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ان میں بڑی تعداد بوڑھوں،خواتین اور بچوں کی ہے”۔
گارڈین نے لکھاکہ’’اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دو تھیٹروں کے درمیان جو چیز واضح طور پر فرق کرتیہے وہ یہ ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بستیوں کیدوبارہ تعمیر کا موقع نہیں دیا ہے۔ اسرائیلکے اندر ایسا کرنے کے لیے کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ مغربی کنارے میں واقعات نے بالکلمختلف موڑ لیا ہے۔
اخبار کے مطابق ’’اببھی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کی امیدہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو‘‘۔ تاہم بین الاقوامی عدالت انصاف کے تاریخی فیصلےکے جاری ہونے سے ایک دن قبل اسرائیلی پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد کی جوکہ نیتن یاہو کی قیادت میں اتحاد بنانے والی جماعتوں کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کیگئی۔ اس قرارداد میں فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کردیا گیا تھا۔
اداریہ کے مطابق شایدیہ اس مقام کی عکاسی کرتا ہے جس میں اسرائیلی معاشرہ آج خود کو پا رہا ہے۔ تاہم یہایک تباہ کن اور کم نظر پوزیشن ہے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل کو 2005 میں غزہ سے 8000یہودی آباد کاروں کو نکالنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب مغربی کنارےاور مشرقی یروشلم میں آباد کاروں کی تعداد 90 گنا زیادہ ہے۔
اگر چہ عقلمند لوگبرسوں پہلے آبادکاری روکنے کا فیصلہ کرتے تب بھی یہ مسئلہ مشکل ہوتا، کیونکہ 2012میں مقبوضہ مشرقی علاقوں میں آباد کاروں کی تعداد 65 گنا زیادہ تھی۔
اخبار نے مزید کہاہے کہ "لیکن بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے اسرائیل سے تمام آباد کاروں کونکالنے اور فلسطینیوں کو قبضے سے ہونے والے نقصان کا معاوضہ ادا کرنے کے مطالبے کیاہمیت کو کم نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسرائیل شاید ہی فلسطینیوں کے قومی وجود کو تسلیمکرتا ہے، لیکن یہ ایک ایسی پہچان ہے کہ دنیا کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دینیچاہیے”۔
برطانوی اخبار نےاپنے اداریے کا اختتام کرتے ہوئے لکھا کہ "عالمی طاقتوں کو اپنے آپ سے سوال کرناچاہیے۔ وہ کیوں جاری خونریزی کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام دکھائیدیتے ہیں، کیوں کہ بغیر کسی معاہدے کے بین الاقوامی اداروں کو اپنی ساکھ کھونے کا خطرہہے اور لوگوں کا ان معاہدوں کی افادیت پر اعتماد ختم ہوچکا ہے”۔