مریضوں کو موت و حیات کی کشمکش میں رکھا جاتا ہے، تاکہ بین الاقوامی برادری کے سامنے اسرائیلی حکومت یہ تاثر دے سکے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق مریضوں کا خیال رکھتی ہے- جب کسی اسیر کی مرض خطرناک حد کو پہنچتی ہے تو اس کا علاج اس حدتک کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ تو رہے لیکن مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکے-
فلسطینی وزارت برائے امور اسیران نے ذیابیطس کے مرض کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اسرائیلی عقوبت خانوں میں 80 فلسطینی اسیران ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں- جن میں فلسطینی مجلس ساز کونسل کے سپیکر ڈاکٹر عزیز دویک، 71سالہ رکن پارلیمنٹ الشیخ احمد الحاج، سابق فلسطینی وزیر برائے امور اسیران انجینئر وصفی قبھا، جنین شہر کے مئیر حاتم جرار، جہاد اسلامی کے کمانڈر الشیخ یوسف عارف اور بائیس سال سے قید و بند کی مشقتیں اٹھانے والے مقبوضہ بیت المقدس کے شہری علاء بازیان شامل ہیں-
رپورٹ کے مطابق عقوبت خانوں میں مریضوں کے علاج کا خیال رکھا جاتا اورنہ انہیں مطلوبہ دوائیں فراہم کی جاتیں ہیں- خون میں شوگر کی کمی کے باعث مریضوں کو وقتاً فوقتاً بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں- جبکہ جیل میں مریضوں کے ساتھیوں کو علم نہیں ہوتا کہ شوگر کا دورہ پڑا- اسیر کی زندگی بچانے کے لیے جیل انتظامیہ سے ڈاکٹر بلانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر وہ اکثر ٹال مٹول سے کام لیتی ہے- ایک دفعہ ایک اسیر ڈاکٹر نے اپنے ساتھی مریض کا علاج کیا، مگر جب جیل انتظامیہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر کو سزا کے طور پر کال کوٹھڑی بھیج دیا- یہ وہ انعام ہے جو اسرائیلی انتظامیہ اسیران کو اپنے ساتھیوں کی جان بچانے پر دیتی ہے- ڈاکٹر کو نہ صرف کال کوٹھڑی کی سزا دی گئی بلکہ اس کے عزیز و اقارب کو ملاقات سے بھی روک دیا گیا-
جیل انتظامیہ کی طرف سے مقرر ڈاکٹر ذیابیطس کے مریضوں کو بعض اوقات غلط ادویات فراہم کرتے ہیں- ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ولید عقیل کو دل کے مرض کی دوا دے دی گئی- جس کے باعث ان کی حالت غیرہوگئی تھی- ذیابیطس کے مرض میں مبتلا اسیران کو پرہیزی کھانا نہیں دیا جاتا جس کے باعث ان کی مرض میں اضافہ ہورہا ہے-
جیل میں ذیابیطس کی مرض کے باعث آخری شہید ہونے والا اسیر 47 سالہ فضل عودہ شاہین ہے جو رواں سال فروری میں شہید ہوئے- جیل میں اسیر فلسطینیوں نے فضل عودہ شاہین کے علاج کے لیے انتظامیہ سے اپیل کی تھی ، لیکن ان کی اپیلوں کا جیل انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں ہوا-علاج نہ ہونے کے باعث ذیابیطس نے بال خرفضل عودہ کی جان لے لی- فلسطینی وزارت برائے امور اسیران کے میڈیا ایڈوائزر ریاض اشقر نے کہا ہے کہ متعدد فلسطینی اسیران اسرائیلی عقوبت خانوں میں ذیابیطس کی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں- جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا اس وقت انہیں کسی قسم کا کوئی مرض لاحق نہیں تھا-
اسیران جیل میں ناقص کھانے اور حفظان صحت کے ذرائع نہ ہونے کے باعث مرض میں مبتلا ہوئے ہیں جبکہ طبی معائنہ نہ ہونے کے باعث بیماری کا جلد پتہ ہی نہیں چلتا- مرض جب آخری مرحلے پر پہنچ جاتی ہے تو اس کی تشخیص کی جاتی ہے- مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے اسیر اسماعیل موسی کی مرض کی تشخیص نہیں کی گئی- اب اسماعیل موسی کی ذیابیطس کی مرض جڑ پکڑ گئی اس کا وزن بھی بہت کم ہوگیا ہے-
ریاض اشقر نے اسرائیلی جیل انتظامیہ کی جانب سے اسیران کی صحت کا خیال نہ رکھے جانے کو بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے- انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جیل انتظامیہ جنیوا معاہدے کی شق نمبر 92 کی خلاف ورزی کررہی ہے، جس کے مطابق اسیران کا مہینہ میں کم از کم ایک دفعہ میڈیکل چیک اپ ضروری ہے-
اسرائیلی عقوبت خانوں میں 170 فلسطینی اسیران مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہیں- جن میں دل کینسر اور گردے کی بیماریاں شامل ہیں- جیل میں صفائی کا ناقص انتظام ہونے کے باعث جلدی بیماریاں سب سے زیادہ ہیں- جیلوں میں کوڑے کا ڈھیر لگا رہتا ہے، جس کی وجہ سے بیرکوں میں کیڑے مکوڑے پیدا ہوجاتے ہیں- عقوبت خانوں میں صفائی کا بہترانتظام نہ ہونے کے باعث اسیران کو جو جلدی امراض لاحق ہیں ان میں جلد کا جلنا، خارش، دانے نکلنا، سوجن اور سکابیوس نامی امراض شامل ہیں یہ بیماریاں جو کتے ، کیڑے مکوڑے اور مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہیں-
جیلوں میں سونے کے لیے مناسب بستر نہ ہونے کے باعث اسیران ہڈیوں اور کمر کے درد کا شکار ہیں- متعدد اسیران بستر نہ ہونے کی وجہ سے زمین پر لیٹنے پر مجبور ہیں- اسیران میں اکثر گردے میں پتھری کے مرض کا شکار ہیں- آنکھوں کی مرض میں بھی اسیران مبتلا ہیں، جبکہ شدید ذہنی تناؤ کے باعث متعدد اسیران کوہسٹیریا کے دورے پڑتے ہیں- اس مرض کا زیادہ شکار وہ اسیران ہیں جنہیں کال کوٹھڑی اور قید تنہائی کی سزا دی جاتی ہے- شدید ذہنی تناؤ کے باعث متعدد اسیران نیند نہ آنے کی مرض کا بھی شکار ہیں- بعض کو دل کے دورے پڑتے ہیں تو بعض دائمی سر درد کا شکار ہیں-
مریض اسیران کے ساتھ اس ناروا سلوک میں ڈاکٹر بھی شریک ہیں- اسیران سے اعتراف کروانے کے لیے ڈاکٹر غیر اخلاقی حدتک تفتیش کاروں کا ساتھ دیتے ہیں- وہ تفتیش کاروں کو اسیر کی کمزوریوں سے آگاہ کرتے ہیں- وہ ان کو بتاتے ہیں کہ اسیر پر کس طرح تشدد کیا جائے گا تو وہ اعتراف کرلے گا- ڈاکٹر اپنی رپورٹ میں اسیر پر کیے جانے والے تشدد کا ذکر نہیں کرتے- اسیر کو عدالت میں لے جانے یا انسانی حقوق کے نمائندوں کے سامنے پیش کیے جانے سے پہلے اس کے جسم سے تشدد کے نشانات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے-
فلسطینی اسیر سے دہشت گرد اور تخریب کار جیسا سلوک کیا جاتاہے- اسرائیلی جیل انتظامیہ کی نظر میں وہ انسان ہیں اور نہ علاج کے مستحق ہیں- فلسطینی اسیر محمد قدومی کے معدے میں درد تھا- جیل کے ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کے گردے میں پتھری ہے- اس بناء پر اسے دوا دے دی گئی، لیکن محمد قدومی کے درد میں اضافہ ہوگیا اور اسکی صحت بہت گر گئی- بالآخر اسے ہسپتال منتقل کرنا پڑا جہاں پر معلوم ہوا کہ اس کے گردے میں پتھری نہیں بلکہ سوراخ ہے- جس بناء پر اس کا فوری آپریشن کیا گیا- ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اگر مریض کو ہسپتال منتقل نہ کیا جاتا تو وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا-
وزارت برائے امور اسیران نے رپورٹ کے آخر میں ڈاکٹرز کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ اپنے نمائندوں کو اسرائیلی جیلوں کے دورے پر بھیجیں اور اسیر مریضوں کے حالات سے آگاہی حاصل کریں- ڈاکٹر کی تنظیمیں اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالیں وہ بیرونی ڈاکٹرز کو اسیر مریضوں کے معائنے کی اجازت دے اور جیل میں ان کے علاج کے لیے ادویات فراہم کی جائیں-