شنبه 03/می/2025

خواتین پر تشدد کا عالمی دن اور فلسطینی خواتین قیدی

بدھ 26-نومبر-2008

پچیس نومبر کو دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کاعالمی دن منایا جاتا ہے- اس سلسلے میں دنیا بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے-خواتین پر تشدد کے حوالے سے حقائق اور اعدادو شمار پیش کیے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے خواتین پر تشدد کے اس دن کے موقع پر قابض یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینی خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف بہت کم ہی  کسی کی توجہ جاتی ہے-

 خواتین پر تشدد کے عالمی دن پر فلسطینی وزارت امور اسیران کی جانب سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں پابند سلاسل فلسطینی خواتین کی حالت زار اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی ہے- رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے تشدد کا ایسا کوئی حربہ دنیا میں موجود نہیں جو خواتین اسیرات پر نہ آزمایا جاتا ہو، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر بد سے بد تر ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں-

رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے تیس سے زائد عقوبت خانوں میں  85 سے زائد خواتین قید ہیں، جن پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، جبکہ عالمی برادری نہ صرف خاموش ہے بلکہ در پردہ ظالم اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے-
 
فلسطینی محکمہ امور اسیران کے چیئر مین فرج الغول نے بتایا کی قیام اسرائیل کے بعد سے اب تک دس ہزارخواتین کو گرفتارکر کے انہیں عقوبت خانوں میں سزائیں دی جا چکی ہیں- 2000 ء کے بعد سے اب تک 750 خواتین کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، جن میں سے چار کا تعلق غزہ کی پٹی اور دیگر کا تعلق مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقد س سے ہے-عقوبت خانوں میں بند خواتین میں چھ کی عمریں 18 سال سے بھی کم ہیں، پانچ خواتین کو عمر قید کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں،احلام تمیمی نامی خاتون کو سولہ مرتبہ عمرقید کی سزا سنائی گئی ہے-

جیلوں میں قید خواتین پر روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کے بارے میں رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ قابض اسرائیل نے مرد قیدیوں کی طرح خواتین قیدیوں سے بھی ادنی درجے کے حقوق تک سلب کر رکھے ہیں- عالمی سطح پر قیدیوں کو فراہم کردہ حقوق کا وہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا – عدالتوں میں پیشی کے دوران خواتین قیدیوں کو قابض یہودی تفتیش کار گھسیٹ کران کی بارکوں سے لے کر جاتے ہیں، عدالت میں بھی انہیں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر پیش کیا جاتا ہے-

جسمانی تشدد اور سزائوں کے علاوہ خواتین قیدیوں پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں، جو ان خواتین کے عزیزواقارب گھر کے برتن تک فروخت کرکے بھی پورے نہیں کر پاتے- جیلوں میں دوران تشدد انہیں عریاں کرکے مارا جاتا ہے، بیشتر تشدد اجتماعی ہوتے ہیں جہاں خواتین اسیروں کو بے لبا س کرکے ایک دوسرے کے سامنے بٹھایا جاتا ہے-

خواتین قیدیوں پرتشدد کے ساتھ ساتھ مریض قیدیوں کو نہ صرف بنیادی طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ بیماروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے-شدید بیمار خواتین قیدیوں کو خواب آور گولیاں دی جاتی ہیں اور اس کے بعد انہیں مسلسل جگائے رکھا جاتا ہے، جو دوائی کے بجائے ایک نیا عذاب بن جاتاہے- 2004  میں نابلس سے گرفتار کی گئی امل فائزہ نامی خاتون کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے، اس کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے،جبکہ قابض حکام کی جانب سے اس کی خراب حالت کے باوجود ابھی تک کسی ڈاکٹر سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی-

عبیرہ عمرو نامی خاتون گزشہ پندرہ بر س سے اسرائیلی عقوبت خانے میں قید ہے ، عبیر ہ کو گردوں کا مرض لاحق ہے، بیماری کے باعث اس کا وزن بہت کم رہ گیا ہے، وہ  بیشتربے ہوشی کی حالت میں رہتی ہے، لیکن قابض فوج کی جانب سے آرام کے لیے ایک کیپسول تک نہیں دیا گیا-سات بچوں کی ماں چھیالیس سالہ لطیفہ کے رحم مادر میں کینسر ہے، وہ قابض یہودیوں کے رحم و کرم پر ز زندگی اور موت کی کشمکش میں جیل میں دن پورے کررہی ہے-

جیل خانے جہاں خواتین کو دن رات قید رکھا جاتا ہے در اصل حشرا ت الارض کا مسکن ہیں، موذی جانوروں کی بہتا ت کی وجہ سے خواتین قیدیوں کو بیشتر سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صفائی کا نظام نہایت ناقص ہے،جیل اہلکار اپنے کواٹروں کی صفائی کر کے قیدیوں کے کمروں کے اندر یا باہر پھینک دیتے ہیں،جس سے حشرات الارض کو خوراک حاصل ہوتی ہے اور وہ انڈے بچے دے کر مزید پھیلتے چلے جاتے ہیں-

ڈائریکٹر انفارمیشن وزارت امور اسیران میں ریاض اشقرنے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اسرائیلی جیلوں میں چار خواتین ایسی بھی ہیں جن کے ہاں بچوں کی پیدائش نہایت بے بسی کی حالت میں جیل کے حوالات میں ہوئی- فاطمہ الزق نامی خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش آج سے دس ماہ قبل ہوئی تھی- وہ تاحال اپنے ننھے یوسف کے ساتھ صہیونی عقوبت خانے میں بند ہے-

اسرائیلی عقوبت خانوں میں خواتین قیدیوں کے حوالے سے ایک تصویری جھلکی ہے، قیدیوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جاتا ہے اسے احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا، البتہ یہ ظاہر ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید خواتین پر تشدد عالمی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے-

مختصر لنک:

کاپی