پنج شنبه 01/می/2025

چند گزارشات پیش کرنا ہیں!

ہفتہ 29-نومبر-2008

اسرائیل کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بیک وقت جمہوری بھی ہوسکے اور تالمود کی تعلیمات پر عمل بھی کرسکے اور اگر یہ دعوی کیا جاتا ہے تو یہ دعوی ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل ہے، لیکن یہ بات وہاں ہی مؤثر ہوگی کہ جہاں دلائل کو صحیح مقام حاصل ہو اس طرح صہیونیت اور جمہوریت کبھی بھی یکجا نہیں ہوسکتے کیونکہ یہودیت اپنی فطرت کے لحاظ سے نسل پرست اور علیحدگی پسند ہے- مختصراً یہ کہ اسرائیل یہودی بھی نہیں ہوسکتا، جمہوری بھی نہیں ہوسکتا اور اس میں بیک وقت دونوں صفات بھی نہیں ہوسکتیں-

لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل کے ذہن میں کیا ہے؟ کیونکہ اس کے راہنماء دعوی کرتے ہیں کہ اسرائیل یہودی ریاست رہے گا، انسانی حقوق اور عالمی قانون کا کیا بنے گا؟ اسرائیل کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے-
حقیقتاً اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ عالمی برادری سے یہ یقین دہانی حاصل کرلی جائے کہ اسرائیل کی آنے والی نسلوں کو یہ اختیار رہے گا کہ وہ لاکھوں غیر یہودی اسرائیلی شہریوں کو یہودی مذہب قبول کرنے پر مجبور کردے-

صہیونی راہنماء بارہا اس کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ اسرائیل میں بسنے والے غیر یہودیوں کو یہودی بنالیا جائے گا نیز یہ کہ بھارت، چین، افغانستان اور جنوبی امریکہ سے یہودیوں کو وہاں لاکر بسایا جائے گا- صہیونی قیادت میں جو لوگ زیادہ صاف بات کرنے کے عادی ہیں انہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ غیر یہودیوں کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو منجمد کردیا جائے اور اس کے لیے فلسطینیوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں خصوصی کیمیکل ملا دیے جائیں- تاہم اسرائیلی دانشوروں، ربیوں اور کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے اراکین کی ایک بڑی تعداد اس میں یقین رکھتی ہے کہ غیر یہودیوں کو وسیع پیمانے پر نسلی تطہیر کے عمل سے گزارا جائے تاکہ اسرائیل کو ’’نسلی‘‘ اور ’’لسانی‘‘ طور پر ’’پاک‘‘ کیا جاسکے-
 
دیگر الفاظ میں ’’اسرائیل کا اصرار ہے کہ ’’قائد نسل‘‘ (یا منتخب قوم) کسی بھی قسم کی آمیزش سے بچایا جاسکے کیونکہ غیر یہودی چند یہودی مذہبی سکولوں کے مطابق کم تر درجے کے انسان ہیں یا مکمل طور پر جانور ہیں- کیا سال 2008ء میں دنیا اس کے لیے تیار ہے کہ اسرائیل کو نسل پرستی کے ساتھ جینے کا حق دے دے؟ جس کا حق ستر برس قبل Third Reich میں نہیں دیا گیا تھا-لیونی کی جانب سے دو ریاستی حل کی جو تجویز دی جارہی ہے اس کے ظاہر پر نہ جایا جائے- حالیہ برسوں میں کئی مواقع پر لیونی نے کہا کہ (مغربی کنارے کے حصوں پر) فلسطینی ریاست کی تشکیل سے فلسطینیوں کے ’’قومی مسئلے‘‘ کا حل تلاش کرلیا جائے گا گویا کہ مسئلہ فلسطین کا حل اسرائیلی اپنی بغل میں دبائے پھرتا ہے- یہ سادہ تبصرہ نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ آئندہ کسی مرحلے میں اسرائیل کو یہ حق مل جائے گا کہ وہ چند یا تمام فلسطینیوں کا اسرائیل سے جبری انخلاء کردے-

اگر ایسا کیا گیا تو اسے یہودی نازی ازم کی ایک اور شکل نہ سمجھا جائے گا- اس سلسلے میں تازہ ترین لطیفہ یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ اسرائیلی اخبارات میں اشتہارات شائع کرائے جائیں گے تاکہ نام نہاد اے پی آئی  Arab Peace Initiative کو اسرائیلی یہودی عوام تسلیم کرسکیں- اس اخباری مہم میں اے پی آئی کی تفصیلات فراہم کی جارہی ہیں تاہم اس کی تفصیلات موجود نہیں ہیں کہ ساٹھ برس قبل اسرائیل کی تخلیق کے وقت جن لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھر بار سے نکال باہر کیا گیا تھا ان کی فلسطین واپسی کا کیا بندوبست ہوگا- فلسطینی کلچر میں دلچسپ محاورہ پایا جاتا ہے جس سے فلسطینی اتھارٹی کے اس احمقانہ رویے کی عکاسی نظر آتی ہے- ’’علم ایک سمندر ہے  جہالت کے سات سمندر ہیں‘‘ کیا فلسطینی اتھارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے عرب اقدام برائے امن کو اس لیے مسترد کررہا ہے کیونکہ وہ اس کی تفصیلات سے اور اس کے مندرجات سے آگاہ نہیں ہے-
 
اگر ایسا ہے تب فلسطینی اتھارٹی کے حکام اور راہنماء جاہل سبزی فروشوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جو رام اللہ، الخلیل اور نابلس میں پھل سبزیاں فروخت کرتے نظر آتے ہیں- اگر اسرائیلی نہیں جانتے تب بھی اسرائیل نے اس مہم کو رد کردیا ہے کیونکہ اسرائیل اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ 1967ء میں جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہ قبضہ چھوڑ دے-
 
اسرائیل اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ اپنے مقبوضات چھوڑ دے- خصوصاً مشرقی بیت المقدس صرف اس لیے کہ اس کے بدلے میں سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ اور بحرین کے ملک سے معانقے کا موقع مل جائے گا- تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب حکمران اور اسرائیلی افسران کسی بھی وقت معائنہ کرسکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں کسی ’’رعایت‘‘ کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس کی بے حد و حساب مثالیں موجود ہیں- اسرائیل کے نزدیک فلسطینی اتھارٹی اور تمام عرب حکومتیں دہشت گردی اور جبر و تشدد کو پروان چڑھانے والے ادارے ہیں اور ان کی حیثیت فقیروں سے زیادہ نہیں ہے اور فقیر خصوصاً جب کہ وہ مردانہ حضائص سے محروم بھی ہو جائیں ان کو انتخاب کا کوئی حق حاصل نہیں ہے- کیا معاملہ یہی نہیں ہے؟

مختصر لنک:

کاپی