وہ ان مظالم پر نہ صرف مہر بلب اور خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ ان کی طرف سے اپنے آئینی حقوق کے لئے کی جانے والی جدوجہد کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے پہلے سے محصور غزہ کی پٹی میں بھرپور آپریشن کے دوران رہائشی علاقوں پر میزائلوں کی بارش کر دی جس کے نتیجے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 300 سے زائد فلسطینی شہید اور 1000 کے لگ بھگ شدید زخمی ہو گئے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق 350 فلسطینی شہید اور 1000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
سڑکوں پر ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں اور بڑی تعداد میں عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد مدد کے لئے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود طبی سہولتوں کی فراہمی میں بڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں، ادویات کی شدید قلت نے زخمیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ حماس پولیس ہیڈ کوارٹرز کو بطور خاص نشانہ بنانے کی وجہ سے ہلاک اور زخمیوں کی بڑی تعداد پولیس اہلکاروں پر مشتمل ہے جبکہ خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شہید ہوئے ہیں ۔
اسرائیلی طیاروں نے حماس کے 30 ٹھکانوں پر بمباری کی اور میزائل پھینکنے۔ فلسطینی حکام نے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے کھلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اسرائیلی حکام نے بھی ان حملوں کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے اس سے بھی زیادہ سخت اقدام کر سکتے ہیں جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اس سے ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اسرائیلی حملوں کی تائید و حمایت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنے اس موٴقف کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کے لئے ہر قدم اٹھانے کا حق پہنچتا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ان حملوں اور بڑی تعداد میں فلسطینی عورتوں مردوں بچوں اور حماس کے اہلکاروں کی شہادت کے بعد عرب لیگ نے جو ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا اسے موٴخر کر دیا گیا جبکہ لیبیا نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور آخری اطلاعات آنے تک سلامتی کونسل کا اجلاس شروع ہو چکا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل نے امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی اور مغربی حلقوں کی تائید و حمایت سے نہ صرف معاہدہ کیمپ ڈیوڈ اور معاہدہ اوسلو کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے دعوے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں بلکہ اس نے ایک بلدیاتی ادارے سے مشابہت رکھنے والی ایک نیم خودمختار فلسطینی ریاست کو بھی تہس نہس کرنے اور فلسطینی عوام کو ترک سکونت پر مجبور کرنے کی ایسی وحشیانہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں آئے روز فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔
انہیں مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی سے بھی روک دیا گیا ہے۔ اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود غزہ کو محصور کرنے کے لئے ایک غیرقانونی دیوار کی تعمیر نہ روکی گئی۔ مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور ہیکل سلیمانی کی تلاش کی آڑ میں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر مصری ذرائع ابلاغ کے مطابق ہزاروں فلسطینی ترک سکونت کر کے مصر میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی ٹی وی اسٹیشن، سابق صدر یاسر عرفات کی سرکاری رہائش گاہ، انتظامی دفاتر، پولیس ہیڈ کوارٹر اور ہنگامی طبی امداد کے مراکز کو تباہ کر دیا اور ایک دن کے لئے بھی فلسطینی ریاست کو سکھ اور سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دیا ۔
اسرائیل کے ان اقدامات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تمام فلسطینیوں کو ترک سکونت پر مجبور کر کے یہاں سے نکال باہر کیا جائے اور اسرائیل مکمل یہودی آبادی پر مشتمل ریاست بن جائے۔ لیکن انتہائی ترقی یافتہ، مہذب اور روشن خیال امریکہ اور پوری یورپی برادری کو بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومت اور فوج کی یہ دہشت گردی نظر نہیں آتی بلکہ وہ ان انسانیت سوز مظالم کی مذمت کرنے کی بجائے ان اقدامات کو اسرائیل کا جائز حق قرار دیتے ہوئے مظلوم و مقہور اور بے گناہ فلسطینی عوام کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی آئینی و قانونی جدوجہد کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ادھر حالت یہ ہے کہ اسرائیل کی قومی اسمبلی کی عمارت پر مستقبل کے اسرائیل کا جو نقشہ کندہ کیا گیا ہے اس میں خاکم بدہن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سمیت عراق و شام اور پورا سعودی عرب شامل ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جس سرزمین میں ان کے بزرگوں کی ہڈیاں دفن ہیں وہ اس پر قبضہ کر کے رہے گا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اسرائیل کے ان خوفناک عزائم کے باوجود عالم عرب اور عالم اسلام کی طرف سے کوئی مثبت اور نتیجہ خیز ردعمل دیکھنے میں نہیں آ رہا بلکہ اسرائیل سے رابطے بڑھانے اور اسے تسلیم کرنے کا عمل جاری ہے ۔ اندریں حالات اگر پورے عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی طرف سے ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانے اور فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم روکنے کے لئے کوئی ٹھوس اور مثبت اقدام نہ کیا گیا تو اسرائیل کی مزید ہلاشیری ہو گی اور عرب ممالک کے خلاف اس کی جارحیت کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جائے گا۔ اس المناک سانحہ پر عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کے بعد اسے موٴخر کرنے کا ہرگز کوئی جواز نہ تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پورا عالم اسلام فلسطینی عوام کی جدوجہد کی تائید و حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرے اور سیاسی، اخلاقی اور ہر محاذ پر فلسطینی عوام کا بھرپور ساتھ دیا جائے۔ عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے پوری عالمی برادری کو اسرائیلی مظالم سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کی مکمل تائید و حمایت کی جائے اور عالمی برادری پر واضح کر دیا جائے کہ اگر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کو روکا نہ گیا اور ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے معاہدہ کو عملی شکل نہ دی گئی تو اسرائیل اس علاقے کا ایک شتر بے مہار اورغنڈہ ملک ثابت ہو گا جو مسلمان ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو گا۔
اس حوالے سے یہ کہنا بھی ہرگز مبالغہ نہ ہو گا کہ اگر چھوٹے اور مسلمان ممالک نے اپنے درمیان اتحاد و یکجہتی کے رشتوں کو مضبوط نہ بنایا اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے مالیاتی وسائل، افرادی قوت اور عسکری ذرائع کو یکجا نہ کیا تو وہ اسی طرح اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے انہیں نشانہ بناتا رہے گا اور اس کے سرپرست مغربی اور یورپی حلقے اس کی تائید و حمایت سے بھی دستکش نہ ہوں گے۔
ان حالات میں ان ممالک کی ترقی اور خوشحالی تو کجا ان کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ معروضی حالات اور زمینی حقائق بالخصوص گلوبل ولیج کے تصور کے حوالے سے پوری عالمی برادری کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرنا ہو گا۔ اگر علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کا خاتمہ مقصود ہے تو نہ صرف اسرائیل کی دہشت گردی کو روکا جائے بلکہ اپنا ملک اور معاملات چلانے اور تعمیر و ترقی کی منازل طے کرنے میں فلسطینی عوام کی بھرپور معاونت کی جائے۔