غزہ کی پٹی کے محاذپر کشیدگی سے نمٹنے میں قابض حکومت کی پالیسی کے خلاف صیہونی ریاست کے اندر تنقید بڑھرہی ہے، کیونکہ اس نے فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کے خوف سے دسیوں ہزار آباد کاروں کےآباد علاقے پر حفاظتی محاصرہ لگایا گیا۔
ویب سائٹ "نیوز آف دی ریلیجیئس جیوش ورلڈ”نے ایک اسرائیلی فوجی تجزیہ کار کے حوالے سے کہا ہے کہ "اگرچہ اسرائیل نے باضابطہطور پر کسی خصوصی آپریشن کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] اور اسلامیجہاد نے اس لمحے تک راکٹ یا سنائپر فائر نہیں کیے ہیں، لیکن ہمیں حالت جنگ میں دن گزارناپڑتا ہے۔
"فوجی تجزیہ کار”ڈیوڈ گولڈ برگ” نے جنوب میں آباد کاروں میں غصے کی کیفیت کا انکشاف کرتےہوئے کہا کہ حکومت آبادکاروں کو وضاحتیں دیے بغیر دور رس اقدامات نہیں کر سکتی۔”آباد کاروں کا کہناہے کہ اگر سکیورٹی سسٹم کے پاس راکٹ لانچروں کے گروپوں، یا اسنائپرز کے بارے میں مخصوصمعلومات ہیں اور وہ حملوں کا بھی ارادہ رکھتےہیں تو انہیں لانچ سے پہلے ہی تباہ کردیا جائے گا۔
انہوں نے زور دےکر کہا کہ غزہ کے ارد گرد کے علاقے کی تمام سڑکوں کو بند کرنے اور جنین میں ایک حملہآور کی گرفتاری کی وجہ سے معیشت کو مفلوج کرنے کا خیالی فیصلہ ناقابل قبول ہے۔
صہیونی صحافی نےقابض وزیر اعظم یائر لپید سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کے سامنے اپنے اعمال کی وضاحت کریں۔
اگست کے اوائل میںقابض فوج نے اسلامی جہاد تحریک کے رہنما بسام السعدی اور ان کے داماد کو شمالی مقبوضہمغربی کنارے کے جنین کیمپ سے گرفتار کر لیا۔ اس آپریشن میں اسرائیلی فوج نےالسعدی کی اہل خانہ کوبھی زدو کوب کیا۔