پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیل کوغزہ میں فوجی کارروائی کی قیمت چکانا پڑے گی

بدھ 7-جنوری-2009

اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جوجنگ (ہولوکاسٹ ) مسلط کررکھی ہے اس کی زد میں سب سے زیادہ معصوم شہری آئے ہیں- المناک مناظر وحشت و بربریت کا عملی ثبوت فراہم کررہے ہیں- قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے، الفاظ اسے بیان کرنے کے لئے ناکافی ہیں-

2008-09ء میں غزہ کا جو منظر ہے یہی منظر 1945ء میں ڈریسڈن کا تھا،جس طرح جنگ عظیم دوم کے اختتام پررائل ائیر فورس ( آر اے ایف) نے اسے نیست و نابود کردیاتھا- اسی طرح غزہ کے پندرہ لاکھ باشندوں کو قابض اسرائیلی فوج ہلاک کرنے اور معذور بنانے پر تلی ہوئی ہے اسے موجودہ دورکی بدترین کاروائی قرار دیا جاسکتا ہے-

لیکن غزہ اور ڈریسڈن میں بنیادی فرق موجود ہے- ڈریسڈن کو اتحادیوں نے نشانہ بنایا تھا اور یہ نازیوں کے اقدامات ( ان میں لندن اور برطانیہ نے دیگر شہروں پر جرمن حملے بھی شامل ہیں)، کا بدلہ تھا- لیکن غزہ نے تواسرائیل کے خلاف کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیاتھا، کیا ہم یہ فراموش کرچکے ہیں کہ غزہ میں جو لوگ یہودی حملے کا نشانہ بنے ہیں وہ مہاجر ہیں، ان کی اولادہیں یا ان کے پوتے، نواسے ہیں جنہیں اسرائیل کے اندر واقع ان کے گھروں اور دیہاتوں سے نکال باہر کیا گیا-

1948ء میں اسرائیل نے ہلاکت خیز نسلی تطہیر (Genocidal Ethnic Cleansing) کے بعد ان لوگوں کو باہرپھینکا اور اس وقت سے کوشش کررہے ہیں کہ ان کے گھروں پر بم باری کی جائے، ان کے بچوں کو ہلاک کیا جائے ، ان کے کھیتوں میں بلڈوزرچلا دیئے جائیں یا انہیں فاقہ کشی میں مبتلا کرکے موت کے حوالے کردیا جائے – دہشت اور ہلاکت کے ساٹھ سالوں کے بعد اسرائیل نے فضائیہ کے ذریعے پوری قوم کو یک لخت ختم کرنے کی کوشش کی اوراس اندوہناک کاروائی کا مقصد صرف یہ تھاکہ ’’یہودی قوت‘‘کا مظاہرہ کیا جائے- یہ کیسی بہادری ہے کہ امریکی ساختہ میزائلوں، بموں اور گولہ بارود سے عمارتوں، مسجدوں، بازاروں ، میڈیکل سٹوروں اور کالجوں کو نشانہ بنایا گیا، یہ کسی طوربہادری نہیں ہے یہ کھلم کھلا بزدلی ہے-

نازیوں نے ساٹھ برس قبل نہتے لوگوں پر حملہ کیاتھا لیکن ان کا یہ دعوی نہیں تھاکہ وہ بہادری کے اقدامات کررہے ہیں جیساکہ اپنی ذات میں غرق اسرائیلی اب دعوی کررہے ہیں- حقیقت یہ ہے کہ غزہ کو اس لئے تباہی و بربادی کے حوالے کردیاگیاہے کہ اس نے ’’مقدس قبیلے‘‘  کی بالادستی کے  گے جھکنے سے انکار کردیاہے، خاموشی سے موت کو گلے لگانے سے انکار کردیا ہے اور اس کے باوجوداہل غزہ بہتر مستقبل کی  آس لگائے بیٹھے ہیں، آج اہل غزہ کا اعلان ہے ’’ہمیں آزادی چاہیے یا موت ‘‘

ہمارے دورکے نازی چاہتے ہیں کہ فلسطینی خاموشی سے موت کو گلے لگالیں یا موت سے بغل گیر ہونے کے عمل میں جس قدر خاموشی برقرار رکھ رکھیں، اسرائیلی رویے سے یہودیوں کے نازی طرز کے عزائم کے بارے میں کوئی شکوک و شبہات نہیں پائے جانے چاہئیں- لیکن اسرائیلی فوج اور اسرائیلی بیوروکریسی، دنیا کے سامنے اس روپ میں سامنے نہیں آنا چاہتے جو ان کا اصل روپ ہے-
 
آج کے صہیونی نازی بن چکے ہیں، جو نازیوں کی طرح سوچتے اور نازیوں کی طرح عمل کرتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ دروغ بیانی پر مبنی ذرائع ابلاغ کی مہم کے ذریعے اپنے جرائم پر پردہ ڈال سکیں- نازی تو نازی ہیں چاہے ان کے نام یہودیوں جیسے ہوں اور وہ یہ ظاہرکرتے ہوں کہ ہم مظلوم ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دعوی کرتے رہیں کہ ہم ’’منتخب قوم ‘‘ ہیں- ’’قائد نسل‘‘ ہیں یا Ubermenschenہیں- اسرائیل نہ صرف موت ، دہشت اور تباہی، اہل غزہ پر مسلط کررہاہے بلکہ نفرت ، وسیع نفرت کے بیج بو رہاہے- نفرت کے بیج ان لاکھوں لوگوں کے دل میں پروان پا رہے ہیں جو دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کو دست و باندھ  کر موت کے حوالے کیا ہے – اسرائیل جس پاگل پن کا مظاہرہ کرتاچلا  آرہا ہے یہ جنگ اس کا سب سے بڑا اظہار ہے – کروڑوں عرب و غیر عرب مسلمان اور دیگر لوگ اپنے ٹی وی سکرینوں پر دیکھ رہے ہیں اور ان کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف ایک ایسی نفرت پیدا ہو رہی ہے کہ جس کے ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے- عربوں اور مسلمانوں کی  آئندہ نسلوں کو اسرائیلی نازیت کی کہانیاں پڑھنے کے لئے نصابی کتابوں کو نہ کھولنا پڑے گا- کیونکہ وہ ٹی وی سکرین پر دن رات اسرائیلی نازیت کے عملی مظاہرے دیکھ رہے ہیں-

ہر خاص وعام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی پوری نسل کو یہ بتا رہاہے کہ وہ یہودیوں کے ہلاکت خیزیوں (Reich)کو برداشت کریں یا ’’دہشت گرد ‘‘ قرا ر دیئے جانے کے لئے تیار رہیں- نتیجہ واضح ہے ’’دہشت گرد‘‘ وجود میں آ رہے ہیں یقینی ہے کہ شرمناک فلسطینی قتل عام اسرائیل اور یہودیوں کے لئے عذاب کا کوڑا بن کر برسے گا- بد قسمتی یہ ہوگی کہ کئی معصوم یہودیوں کو اس کی اسی طرح قیمت ادا کرنا پڑے گی جیساکہ معصوم فلسطینی اس کی قیمت اپنے خون اور اپنی اولاد کے خون سے ادا کررہے ہیں- کہا جا سکتا ہے کہ یہود دشمنی (Antisemitism)پروان چڑھ رہی ہے- لیکن اسرائیل میں اس کے لئے سارا کام ہو رہاہے-

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے پیش نظر ’’حماس‘‘ کو برباد کرنا ہے- لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ اسرائیل کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ حماس کی حکومت کو تباہ و برباد کردے- بلاشک و شبہہ اسرائیل ایک بڑی قوت ( Super Power)ہے جو امریکہ کی سیاسیات کو کم و بیش کنٹرول کررہاہے اور یورپ کی حکومتوں پر بھی اثر انداز ہو رہاہے- تاہم حماس کی حکومت کو ختم کرنا ایک چیز ہے اور حماس تحریک کو ختم کرنا ایک اور معاملہ ہے- حماس کے مقبوضہ فلسطین میں لاکھوں حمایتی اور پیروکار موجود ہیں – عرب دنیا اور مسلم دنیا میں حماس کے حمایتی بلاشک و شبہہ کروڑوں سے متجاوز ہیں- اگر غزہ میں حماس کی حکومت ختم ہوگئی تب بھی ان لوگوں کے دلوں سے حماس کی محبت ختم نہ ہوگی-

عرب ممالک میں حماس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے کئے جانے والے مظاہرے یہ ظاہرکرتے ہیں کہ حماس صرف مقامی اسلامی تحریک نہیں ہے اور اسے اسرائیلی فوجی قوت سے صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں جاسکتا بے شک حماس کو سخت کاروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس سے تحریک مرنے والی یا ختم ہونے والی نہیں ہے- کئی ایسے اشارے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ حماس اپنی مقبولیت اور اپنی وسعت میں اضافہ کرپائے گی- عرب ممالک کے وہ حکمران جو امریکہ کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی طرح کھیل رہے ہیں ممکن ہے کہ وہ حماس کو پسند نہ کرتے ہوں، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے چند ایک نے غزہ کی درگت بننے پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے-

تاہم یہ حقیقت ہے کہ کاسابلانکاسے بحرین تک حماس نے عرب عوام کے دل جیت لئے ہیں- ممکن ہے کہ وہ اس کے فوری فائدے حاصل نہ کرسکتے ہوں تاہم طویل مدتی فوائد یقینی ہیں اور حماس یقیناً ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہے-ایک لمحے کے لئے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں حماس کی قیادت میں چلنے والی حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے-

کیا اس سے حماس کی جانب سے قابض اسرائیل کی مزاحمت ختم ہوجائے گی؟ کیا اس سے اسرائیل کو موقع مل جائے گاکہ وہ کمزور فلسطینی اتھارٹی کے ذریعے ’’امن معاہدہ‘‘ نافذ کرکے مسئلہ فلسطین کو ختم کردے- ایسا کبھی بھی نہ ہوگا کیونکہ حماس، چاہے ہم اسے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ، فلسطینی عوام کی روحانی و اخلاقی راہنمائی کی مظہر ہے نیز یہ اس حقیقت کی عکاس ہے کہ فلسطینی حماس کی قیادت میں اسرائیل سے آزاد ی چاہتے ہیں- علاوہ ازیں حماس کی حکومت کے اسرائیل کے ہاتھوں خاتمے کا مطلب یہ ہوگاکہ اسرائیل نے اپنی سیاسی تاریخ کا احمق ترین قدم اٹھالیاہے- اس اقدام کے نتیجے میں مزاحمتی گروپ بھی حکومت کے بوجھ سے  آزاد ہوجائے گا اور بم باری کی پروا کئے بغیر اسرائیلی عمارات، فوجی چھاؤنیوں اور ہسپتالوں پر حملے کرے گا- تب کسی کو شکایت نہیں ہونی چاہیے-

حقیقت یہ ہے کہ حماس نے کبھی بھی حکومت میں آنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیاتھا، حماس یہ چاہتی تھی کہ فلسطینی حکومت پر اثر انداز رہے، اس کی کوشش ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھنے نہیں تھی- تاہم 2006 انتخابات میں جب فتح نے قومی حکومت میں حماس کو شامل کرنے سے انکار کردیاتھا ، ان حالات میں حماس کے سامنے کوئی راستہ باقی نہ رہ گیاتھا کہ وہ غزہ میں حماس کی حکومت تشکیل کرے – کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کی پٹی کی حکومت سے معزولی ، حماس کے لئے ’’نعمت بصورت مصیت‘‘ثابت ہوگی- ان الفاظ کو یاد رکھیے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ جو جنگ ہے وہ دس سال یا بیس سال یا پچاس سالوں میں ختم ہونے والی نہیں ہے –

مختصر لنک:

کاپی