یکشنبه 11/می/2025

فلسطینی عورتوں اور بچوں کا قتل جائز ہے: یہودی ربی

پیر 19-جنوری-2009

یہودیوں کے ربی نے فتوی جاری کیا ہے کہ فلسطینی عورتوں اور بچوں کا قتل جائز ہے اور ایسا اقدام کرنے والے یہودی کو مجرم تصور نہ کیا جائے-دس لاکھ فلسطینی قتل ہو جائیں تو پروانہ کی جائے- سعودی عرب کے روزنامے ’’الوطن‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ یہودی ربی نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جو کارروائی ہو رہی ہے وہ یہودیوں کی ان تعلیمات کے عین مطابق ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ’’دشمنوں کو اجتماعی سزا دی جائے-
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک ربی کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو مٹا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے قابض اسرائیلی دستے دس لاکھ فلسطینی مار ڈالیں-

اخبار کے مطابق یہودی ربی مورد افے الیاھو نے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کو ایک ہفتہ وار مراسلہ روانہ کیا ہے- جس میں ایسے مضامین شامل ہیں گیا ہے کہ توریت کی کتاب پیدائش اور جنگی قوانین کے مطابق اسرائیل کو اجازت ہے کہ فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے، ربی مورد افے الیاھو کو اسرائیل میں مذہبی رجحان کا عوامی ترجمان سمجھا جاتا ہے-

الیاھو نے وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں کہا ہے کہ توریت کا اصول غزہ پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے قسام بریگیڈ کے راکٹ روکنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا- اس لیے ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے- الیاھو کا کہنا ہے کہ غزہ والوں کو نقصان پہنچانا ایک جائز عمل ہے جسے جاری رہنا چاہیے-
ایک اور انتہا پسند ربی یسرائیل روزن نے کہا ہے کہ توریت کے قانون کے مطابق ایسے مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور (دشمن کے) جانوروں کو مارنا جائز ہے-

سفاد ربی شلومو الیاھو کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان کے سو افراد مار ڈالیں اور راکٹ برسانے کا سلسلہ بند نہ کریں تو ان کے ایک ہزار آدمی مار ڈالیں اور اگر ہم ان کے ایک ہزار آدمی مار ڈالیں اور وہ نہ رکیں تو ہمیں چاہیے کہ ان کے دس ہزار افراد کو مار ڈالیں اور اگر سلسلہ پھر بھی نہ رکے تو اجازت ہے کہ ان کے دس لاکھ آدمی مار ڈالیں چاہے اس میں کتنا وقت لگ جائے-

رپورٹ کے مطابق ربی نے توریت کی کتاب کی اس آیت کا حوالہ دیا ہے ’’مجھے اپنے دشمنوں کا تعاقب کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے اس وقت تک جب تک میں انہیں ختم نہ کردوں-‘‘

مختصر لنک:

کاپی