پنج شنبه 01/می/2025

ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار

پیر 2-فروری-2009

ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان اگلے چند دنوں میں پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، سعودی عرب، انڈونیشیا، سوڈان، یا نائجیریا سمیت کسی بھی مسلم اکثریتی ملک کا دورہ کریں تو ہزاروں افراد ان کے استقبال کیلئے ایئر پورٹ پر موجود ہوں گے۔ طیب ارزدگان کی ذرا سی جرأت نے انہیں کروڑوں دلوں کی دھڑکنیں بنا دیا ہے۔

طیب ارزدگان ان عالمی رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کے دوران بھی صدائے احتجاج بلند کی اور جب ڈیو وس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے دوران اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے غزہ پر بمباری کے حق میں دلائل دیئے تو وہاں بھی اسے جواب دینے کی کوشش کی۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں ہر ایک ملک کے نمائندے کو تقریر کیلئے دس سے بارہ منٹ دیئے گئے تھے۔ شمعون پیریز نے پچیس منٹ تک تقریر کی اور کہا کہ اسرائیلی حملے دراصل حماس کی طرف سے فائر کئے گئے راکٹوں کا جواب تھے۔

طیب ارزدگان نے اپنی تقریر میں جیسے ہی یہ پوچھنا شروع کیا کہ غزہ کے اسکولوں، ہسپتالوں ، اور مساجد پر بمباری کا کیا جواز تھا تو اسٹیج سیکریٹری نے پیچھے سے انہیں ٹوکا کہ ان کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ترک وزیر اعظم نے بڑے مہذب انداز میں کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کو پچیس منٹ دیئے گئے ہیں انہیں جواب دوں گا لیکن اسٹیج سیکریٹری انہیں مزید وقت دینے سے انکار کرتے رہے۔ اس پر طیب ارزدگان نے اجلاس سے واک آؤٹ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔ جاتے جاتے انہوں نے اسرائیلی صدر کی طرف دیکھ کر کہا۔ ”تم معصوم بچوں کوقتل کرنا جانتے ہوں، تم قاتل ہو۔“

اس واقعے سے اگلے روز ارزدگان واپس انقرہ پہنچے تو صبح کے تین بج رہے تھے۔ سخت سردی تھی لیکن اس کے باوجود ہزاروں مردو خواتین اپنے جرأت مند لیڈر کا استقبال کرنے کے لئے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ ان ہزاروں ترکوں کا فلسطینیوں سے کیا تعلق تھا؟ ان ترکوں نے فلسطین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ اپنے وزیر اعظم کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ انقرہ ایئر پورٹ پر طیب ارزدگان کے شاندار استقبال کے متعلق علم نہ تھا کیونکہ میں سفر میں تھا۔غزہ سے رفح بارڈر عبور کرکے مصر میں داخل ہوا تو رفح سے قاہرہ تک 460 کلو میٹر کے سفر کے دوران مصری ٹیکسی ڈرائیور نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں طیب ارزدگان کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیئے۔
 
نہر سوئیز پر بنایا گیا بہت عظیم الشان حسنی مبارک برج کراس کرکے اسماعیلیہ پہنچے تو چائے کیلئے سڑک کے کنارے ایک ہوٹل پر رک گئے۔ ہوٹل کے بیرے باری باری میرے پاس آنے لگے اور مجھ سے ہاتھ ملا کر میرے گالوں پر اپنے روایتی انداز میں بوسہ دینے لگے۔ اس عزت افزائی کی مجھے کوئی وجہ سمجھ نہ آئی۔ دوبارہ سفر شروع ہوا تو میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے ہوٹل والوں کی محبت کی وجہ پوچھی تو اس نے انکشاف کیا کہ ہوٹل والوں کے خیال میں آپ کا تعلق ترکی سے ہے۔ میں نے پوچھا کہ میرا تعلق ترکی سے کیسے بن گیا؟ ٹیکسی ڈرائیور نے بڑی معصومیت سے کہا کہ میں نے انہیں بتایا تھا کہ میرے مسافر کا تعلق ترکی سے ہے۔ میں نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں پوچھا کہ تم مجھے ترک کیوں سمجھ بیٹھے؟ ٹیکسی ڈرائیور نے پریشان لہجے میں کہا کہ رفح بارڈر کھلنے کے بعد غزہ آنے جانے والے اکثر ڈاکٹروں اور صحافیوں کا تعلق ترکی سے ہوتا ہے اس لئے میں بھی آپ کو ترک سمجھتا رہا۔ میں نے اسے بتایا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا۔ اس نے معذرت کی او ر دوسرے ہی لمحے کہنے لگا کہ… ”ام کلثوم اقبال ویری گڈ ویری گڈ“ مجھے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ ام کلثوم اور اقبال کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اگلے ایک گھنٹے میں بیچارا ٹیکسی ڈرائیور مجھے یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا کہ مصرکی معروف گلوکارہ ام کلثوم نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کا عربی ترجمہ بڑے خوبصورت انداز میں گایا ہے۔ اور اقبال کے دل میں دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے بہت درد تھا۔ مصر کے صحرائے سینا میں ٹیکسی کے سفر کے دوران علامہ اقبال کی اس پذیرائی پر میری ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔ پھر میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو بتایا کہ علامہ اقبال کو فلسطین سے گہرا لگاؤ تھا۔ 1929ء میں علامہ اقبال نے لاہور میں فلسطینیوں کے حق میں جلسہ کیا تھا۔ 1931ء میں علامہ اقبال مصر کے راستے سے فلسطین گئے اور موٴتمر عالم اسلامی کی کانفرنس منعقدہ یروشلم میں فلسطینیوں کے خلاف برطانوی سازشوں کی مذمت کی۔ 1931ء میں اقبال سخت بیمار تھے۔ برطانیہ نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کیا تو شاعر مشرق بیماری میں تڑپ اٹھے اور ایک بیان جاری کیا جس میں مسئلہ فلسطین کو پورے عالم اسلام کا مسئلہ قرار دیا۔ اقبال نے کہا تھا
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدئہ دشوار
علامہ اقبال  کی باتیں کرتے کرتے میں قاہرہ پہنچ چکا تھا۔ ایئرپورٹ پر قاہرہ سے مسقط کیلئے پرواز دو گھنٹے لیٹ تھی۔ میں نے اپنے بیگ میں سے فیض احمد فیض کے کلام کا مجموعہ ”نسخہ ہائے وفا“ نکال لیا۔ فیض کی ایک نظم پر آ کر میں رک گیا اور بار بار اسے پڑھنے لگا۔ یہ نظم بار بار پڑھ کر میں اپنے آپ سے بار بار یہ سوال پوچھتا رہا کہ فیض احمد فیض کا فلسطین سے کیا تعلق تھا؟ فیض نے یہ نظم 1980ء میں بیروت میں کہی تھی۔ نظم کا آخری حصہ یوں ہے
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطیں آباد

فلسطین کا کل بھی پاکستان کے ساتھ ایک رشتہ تھا اور آج بھی ایک رشتہ ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد جب ہندوستان نے افغانستان کے ساتھ مل کر 1950ء میں شمالی اور جنوبی وزیر ستان میں بغاوت کی سازش کی تو پاکستان حکومت نے برطانوی جرنیلوں کے مشورے پر وانا پر فضا سے بمباری شروع کردی۔ اس بمباری نے حالات کو سدھارنے کی بجائے بگاڑنا شروع کردیا لہٰذا حکومت کو علامہ اقبال کے دوست مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی یاد آئے۔ انہیں 22/مارچ 1951ء کو پشاور سے وانا لے جایا گیا جہاں ایک قبائلی سردار شہزادہ فضل دین نے مفتی امین الحسینی کو کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی گئی ایک اسٹین گن بطور تحفہ پیش کی۔

مفتی امین الحسینی نے قبائلی عمائدین پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی قدر کریں اور پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازشوں کا حصہ نہ بنیں کیونکہ اگر پاکستان کمزور ہوگیا تو فلسطین اور کشمیر آزاد نہ ہوں گے۔ مفتی امین الحسینی کے دورہ وانا کے بعد وہاں بغاوت دم توڑ گئی۔ مشکل وقت میں پاکستان کے کام آنے والے فلسطینیوں کے ساتھ 1969ء میں ہمارے فوجی حکمرانوں نے بہت برا سلوک کیا۔ فوجی صدر جنرل یحییٰ خان کے حکم پر 1969ء میں بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق (بعد ازاں صدر پاکستان ) نے اردن میں فلسطینیوں پر گولیاں چلائیں۔ آج فلسطینیوں اور پاکستانیوں میں سب سے بڑا رشتہ یہ ہے کہ دونوں امریکا کے ایجاد کردہ جاسوس طیاروں اور ایف 16 طیاروں کی بمباری کا نشانہ ہیں۔ دونوں کی قیادت دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے۔ دونوں کو مفتی امین الحسینی جیسے علماء اور طیب اردگان جیسے لیڈروں کی تلاش ہے۔

لینک کوتاه:

کپی شد