محاصرہ زدہ اہل غزہ کے خلاف جو ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں ان میں ایف سولہ طیارے اور تمام مہلک میزائل، اپاچی ہیلی کاپٹر، سفید فاسفورس کے گولے اور Flachetteگولے شامل ہیں- علاوہ ازیں DIME (Dense Inert Metal Exploxive) بھی شامل ہے جو کہ ایک مہلک اسلحہ ہے جسے امریکہ کی فوج نے حال میں تیار کیا ہے اور یہ محدود علاقے میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا ہے-
ڈائیم DIMEکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابھی تک تجرباتی مرحلوں میں ہے- کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو پینٹاگون کی جانب سے اجازت ملی تھی کہ اس اسلحے کو غزہ کے حملے کے دوران استعمال کیا جائے اور اس اسلحے کا عملی تجربہ کیا جائے- ایک ریٹائرڈ برطانوی سرجن ڈیوڈ ہال پن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کو ہتھیاروں کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا- انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک یہ ہتھیار جہنم کی پیداوار ہیں- میرا خیال ہے کہ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ غزہ کی آبادی کو جس قدر بھی خوفزدہ کیا جاسکے اتنا ہی بہتر ہوگا-
اسرائیل نے 23 روز تک جنگ مسلط کیے رکھی اور جب جنگ بند ہوئی تو غزہ کی حالت عقوبت خانے کی سی تھی- دس ہزار سے زائد افراد ہلاک و زخمی ہو چکے تھے جبکہ چار سو سے زائد معصوم بچے شہید کردیے گئے تھے اور اس سے پانچ گنا تعداد ایسے بچوں کی تھی کہ جو زخمی ہوئے یا معذور ہوئے-
علاوہ ازیں غزہ کی پٹی میں شہری ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ کردیا گیا- ان میں سرکاری عمارات، نجی ادارے، مساجد، کالج، ہاسٹل، تجارتی مراکز، بجلی گھر، پانی کے مراکز، اقوام متحدہ کے انتظام میں چلنے والے سکول، پولیس سٹیشن، ڈیری فارم اور ہزاروں گھر شامل ہیں-
جن لوگوں نے جنگ عظیم دوم دیکھی ہے انہیں یاد ہے کہ 18 جنوری کو ڈریسڈن کو بھی ایسے تباہ کیا گیا- اسرائیل نے جنگی جارحیت کا اقدام جان بوجھ کر کیا- اسرائیلی فوجیوں سے کہا گیا کہ وہ شہری آبادی کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتیں یہی وجہ ہے کہ عام افراد کی رہائش رکھنے والی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ تباہی غیر معمولی ہو-
اسرائیل کا دعوی ہے کہ اس جنگ کا مقصد یہ تھا کہ حماس کو ٹارگٹ بنایا جائے- غزہ کے لوگ اس کی لپیٹ میں نہ آئیں، تاہم اس کے سیاسی و فوجی تجزیہ نگاروں اور کئی دانشوروں نے تجویز دی کہ ’’حماس‘‘ کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ پوری فلسطینی آبادی کو بھی نشانہ بنایا جائے-
مثلا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی دانشور اور معروف صحافی یارون لندن نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ وقت آچکا ہے کہ فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کو ختم کیا جائے- غزہ میں بھوک اور فاقے کی حالت مسلط رکھی جائے اور شہریوں کو ہلاک کرنے میں کسی رو رعایت سے کام نہ لیا جائے- انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام اور قیادت ایک ہیں ان کو مارنے میں کوئی احتیاط نہ برتی جائے- انہوں نے کہا کہ غزہ کی آبادی نے حماس کو ووٹ دیے تھے اس لیے یہ امتیاز کرنا مشکل ہے کہ کس نے حماس کے حق میں ووٹ دیا اور کس نے اس کی مخالفت میں- اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو کس طرح تہس نہس کیا-
بدترین جنگی جرائم
اسرائیلی حکام اور سرکاری ترجمان کبھی اس سے انکار نہیں کرتے کہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے تاہم ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان جنگی جرائم کی بدترین ہئیت اور اثرات سے انکار کردیا جائے ان کا مجموعی طور پر کہنا ہوتا ہے کہ ’’جنگ کے دوران ایسے واقعات تو ہوتے ہیں‘‘ نیز یہ کہ ’’حماس نے بھی تو جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے‘‘-
غزہ کے اندر جس قسم کے مہلک اور شرمناک جنگی اقدامات کیے گئے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے قلم شرماتا ہے، ان جرائم کے ارتکاب کا ذکر ہی انسانیت کا سرجھکانے کے لیے کافی ہے-
اسرائیلی مظالم اور حماس کے ’’جرائم‘‘ کا یک جا ذکر کرنا بے معنی ہے اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسا کہ نازیوں کے مظالم کو یورپ پر قبضہ کرنے والے نازیوں کا مقابلہ کرنے والوں کی مزاحمت کے مترادف قرار دے دیا جائے-
غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے جو جرائم کیے ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ان کے لیے کسی مزید ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ہے- حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے اس بدترین جارحیت کو جس طرح بھی اور جس قدر بھی چھپانے کی کوشش کی ہے اس میں اسے کامیابی نہیں مل سکی ہے-
اسرائیل نے اجتماعی تباہ کاری والی فوجی کارروائی کو چھپانے کے لیے چند نام پیش کیے ہیں لیکن دونوں کا باہم کوئی تناسب نہیں ہے- 5 فروری کو اسرائیلی روزنامے ’’ہارٹز‘‘ نے رپورٹ شائع کی کہ اسرائیلی فوج نے ان افسران کے نام اپنی فہرستوں سے نکالنا شروع کردیے ہیں کہ جو غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرنے اور وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں- غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائی کرنے والوں کے نام فہرستوں سے نکالے جارہے ہیں- حکومت کو خدشہ ہے کہ ان لوگوں کے نام منظر عام پر آجانے سے غزہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین ان کے درپے آزاد ہو جائیں گے اور انہیں عالمی عدالتوں میں گھسیٹیں گے-
یہ مبنی پر انصاف ہوگا کہ ایسا غیر سیاسی، غیر حکومتی ادارہ قائم کیا جائے جو جنگی جرائم کا ریکارڈ مرتب کرے اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے کردار ادا کرے- اس سب کے باوجود ان مجرموں میں سے کئی ایک ناموں سے لوگ پہلے ہی آگاہ ہیں- ان میں عام فوجیوں اور افسروں ہی کے نام شامل نہیں ہیں بلکہ سیاسی لیڈر بھی ان میں شامل ہیں کہ جو احکامات جاری کرتے رہے-
یہ درست ہے کہ اس کی کوئی گارنٹی ہے کہ تمام جنگی مجرموں کو سزا مل جائے گی اور وہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے- یہ اسی وقت ممکن ہے کہ عالمی سیاسی رائے اس کے حق میں ہو- نیز یہ کہ امریکہ اور اس کے حواری اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے-
فرض کیا کہ ان پر جرائم کا ارتکاب ثابت نہ کیا جاسکے تب بھی یہ درست نہیں ہے کہ جنگی مجرم جرم بھی کریں اور بچ بھی نکلیں اس لیے ضروری ہے کہ ایک جامع کوشش کا آغاز کیا جائے تاکہ اس جرم کے حوالے سے تمام شواہد اکٹھے کیے جاسکیں- غزہ کے بچے جنہیں بے دردی سے موت کے منہ میں پھینک دیا گیا اور جن کو ہلاک کرنے کے لیے امریکی اسلحہ اور بارود کا استعمال کیا گیا ہم سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم قاتلوں کا تعاقب کریں، ان قاتلوں کو آزادی سے گھومنے پھرنے اور سکون کی نیند سے نہ سونے دیا جائے-
ان انسان نما جانوروں کا تعاقب کرنے سے یہ ادراک کرنا آسان ہو جائے گا کہ ہمارے بچوں کا مستقبل انسانیت دوست قوانین کے ہاتھوں میں ہوگا یا جنگل کے قانون کے اختیار میں-