جارج بش کے جانشنین کے بارے میں قبل از وقت کسی قسم کااظہار خیال شاید مناسب نہ ہو ، تاہم واشنگٹن سے جو اشارے مل رہے ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں- اوباما نے اپنے گرد ایسے لوگو ں کو بڑی تعداد میں جمع کرلیا ہے کہ جو سمجھتے ہیں کہ’’اسرائیل نمبرایک پر ہے‘‘ روحم ایما ، نومئیل سے ڈینس روس تک کئی نام لئے جاسکتے ہیں- باراک اوباما کانگریس کے دبائو کو کئی معاملات مثلاً اسرائیل کے امور کے بارے میں سرتسلیم خم کرتے پائے گئے ہیں-
’’فری مین کا معاملہ ‘‘اس کی تازہ ترین مثال ہے – ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی کانگریس یہودی کانگریس ہے یا زیادہ صحیح الفاظ میں ایک ایسا علاقہ ہے جس پر اسرائیل کا تسلط ہے – سینیٹر، کانگریس کے مرد اراکین اور کانگریس کی خواتین اراکین امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC)کی اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے زیادہ تابعدار محسوس ہوتی ہیں-منظم یہودی قوت کے حضور اس شرمناک اطاعت گزاری کے پیچھے دو اہم حقائق موجود ہیں- پہلی حقیقت یہودی دولت کی غلامی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکی سیاستدانوں خصوصاً قومی سطح کے سیاستدانوں کی اکثریت اخلاقی اصولوں اور اقدار سے بے بہرہ ہے –
اے آئی پی اے سی (ایپیک ) جو امریکہ اسرائیل عوامی امور کمیٹی ہے نے اپنا مشن یہ بنا رکھاہے کہ امریکہ اور اس کے بے حد و حساب وسائل کو اسرائیل کے لئے تعین کیا جائے – اس تنظیم کے سامنے اولین ٹارگٹ یہ ہے کہ رشوت کے ذریعے، بلیک میلنگ کے ذریعے اور اگر ضروری ہو تو ڈرانے دھمکانے کے ذریعے امریکی سیاستدانوں ، حکام اور افسران کو مجبور کیا جائے کہ جزوی طور پر ، کلی طور پر ،مشروط طورپر یاغیرمشروط طور پر اسرائیل کی حمایت کے لئے تیار کیا جائے-
اسرائیلی دہشت گردی کے بارے میں سوال اٹھانے والوں کو ایلان دو شووز نے جس طرح دھمکیاں دی ہیں ،وہ ایک مثال ہے – مختصراً یہ کہا جاسکتاہے کہ امریکہ یا تو اسرائیل کا غلام بن چکاہے یا صہیونی حکومت سے خوفزدہ ہے –
امریکی دارالحکومت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق امریکہ ایسی فلسطینی حکومت سے مذاکرات نہیں کرے گا ، جن میں حماس اور ایسی تنظیمیں شام ہوں کہ جو اسرائیلی بلیک میلنگ کے آگے جھکنے کے لئے تیار نہ ہوں یا اسرائیلی ریاست کو بلاوجہ قانونی ریاست تسلیم کرلیں- امریکہ کی موجودہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ،یہودی لابی کی دوست کے طور پر معروف ہیں اور بار بار انتباہ کرچکی ہیں کہ تیز رفتاری سے کمزور ہوتی ہوئی فلسطینی اتھارٹی کے راہنما محمودعباس ،حماس کے ساتھ مذاکرات نہ کریں ،کلنٹن بھی بارہا خبر دار کرچکے ہیں کہ 900 ملین ڈالر کی رقم جس کا اس مہینے کے شروع میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ وعدہ کیاگیاہے کو واپس لے لیا جائے گا اگر قومی یک جہتی حکومت اسرائیل کو تسلیم نہ کرے –
مسز ہیلری کلنٹن کو چاہیے کہ وہ اپنی رقم اپنی جیب میں رکھیں ، فلسطینیوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے – انہیں چاہیے کہ وہ یہ رقم اسرائیل میں قائم ہونے والی یہودی نازی حکومت کے حوالے کردیں تاکہ وہ مقبوضہ فلسطین میں نئی آبادکاریاں (Settlements)وجود میں لے آئیں- محترمہ ہیلری کلنٹن صاحبہ آپ کو اس حقیقت سے باخبر ہونا چاہیے کہ یہ حماس اور کوئی اور صاحب ضمیر تنظیم رقم کے حوالے سے فلسطین کی خودمختاری پرسوے بازی نہیں کرے گی – یہ ایمان کا مسئلہ ہے ، اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہے –
فلسطینیوں ، جن کی واضح اکثریت صاحب ضمیر لوگوں پر مشتمل ہے ، اخلاقی خودکشی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اس کے لئے تیار نہیں ہیں نہ انہیں امریکہ نے بسایا ہے اگر ہمارے قوانین وجود کا دارومدار اس پر ہے کہ قاتل اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے اور امریکہ سے اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا جائے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا- اس کی بجائے فلسطینی اسے زیادہ ترجیح دیں گے کہ ’’دہشت گرد‘‘ کہلاوائے جاتے رہیں-
(جاری ہے)