جمعه 09/می/2025

اسرائیلی جھنڈا زمین بوس کرنیوالے زخمی فلسطینی مجاہدکا ’’انوکھا‘‘ علاج

پیر 25-مئی-2009

فلسطینی مجاہدوسیم ابو شہلا کا نام اتنا مشہور نہیں جتنی اس کی کارروائی فلسطینیوں کے لئے قابل فخر و احترام ہے- تحریک انتفاضہ 2000ء  شروع ہونے کے بعد انہوں نے اسرائیلی یہودی آبادی نتساریم میں اسرائیلی جھنڈا اتار کروہاں پر فلسطینی علم لہرایا –
 
اس کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج کی گولیوں سے ان کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئے تھے اس کے باوجود وہ اپنے کارنامے پر خوش تھے-غزہ سے تعلق رکھنے والے 29سالہ مجاہد علاج کے لیے مغربی کنارے گئے- مغربی کنارے  ’’انجیلی‘‘ ہسپتال میں علاج کے بعد جب وہ واپس غزہ آئے تو وہ کسی سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے-

مرکزاطلاعات فلسطین کو انہوں نے اپنی داستان علاج بیان کرتے ہوئے کہاکہ کاش وہ علاج کی بجائے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے- وہ زندگی کے تلخ ترین تجربے سے گزرے ہیں – انہوں نے اپنی داستان الم کاآغاز کرتے ہوئے کہاکہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے بعد انہوں نے نابلس کے ’’انجیلی ‘‘ ہسپتال میں علاج کے لیے درخواست دی جو منظور کرلی گئی –

وہ بیان کرتے ہیں ’’میں بیت حانون کی راہداری کے راستے نابلس پہنچا اور انجیلی ہسپتال گیا- وہاں پر میرا ضروری طبی معائنہ کیاگیا- طبی معائنے کے نتائج کی روشنی میں ڈاکٹر نے مجھے اردن میں علاج کروانے کا مشورہ دیا- میں نے اردن جانے کے لئے درخواست دی – اس سلسلے میں مجھے بڑی آسانیاں فراہم کی گئیں اور اسی دن ہی مجھے اردن میں علاج کے لئے اجازت نامہ دے دیا گیا-وسیم ابو شہلا کا کہناتھاکہ اس کارروائی کے ذریعے ایک پھندا تیار کیا جارہاتھا- وسیم ابو شہلا نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا’’ میں راہداری سے گزرنے کے لئے این اوسی کا انتظار کرتا رہا بالآخر 5اپریل کو میں نے فلسطینی اتھارٹی کے دفتر میں ڈاکٹر مدحت طہ کو فون کیا اور این او سی کے حصول کے لئے مدد چاہی-

انہوں نے مجھے اپنے ڈاکومنٹ رفعت محیسن نامی افسر کو ارسال کرنے کو کہا- میں نے اپنے ڈاکومنٹ رفعت محیسن کو پہنچادیئے- دو دن کے بعد فلسطینی صدر کے دفتر سے ڈاکٹر مدحت طہ کی مجھے فون کال آئی – انہوں نے مجھ سے پوچھاکہ تم اس وقت کہاں ہو – میں نے بتایا کہ میں اس وقت رام اللہ کے ’’عین المصباح ‘‘ علاقے کی سپر مارکیٹ کے سامنے کھڑا ہوں – تھوڑی دیر بعد وہاں کالے رنگ کی ہنڈا کار آکر رکی ، اس میں سے چار مسلح افراد نکلے ، انہوں نے مجھے گن پوائنٹ پر گاڑی میں سوار کرلیا- اس دوران میرے فون کی گھنٹی بجی تو مجھ سے فون چھین لیا گیا- میں نے جب ان سے پوچھاکہ مجھے کہاں لے جایا جارہاہے تو وہ گالی دے کر مجھے جواب دیتے کہ اپنا منہ بند رکھو-

مجھے ایک تفتیشی مرکز لے جایا گیا – لگتا تھاکہ وہ فلسطینی صدر محمود عباس کو براہ راست جوابدہ سیکورٹی فورسز کا دفتر تھا- وہاں پر بورڈ لگاہواتھا لیکن بد قسمتی سے پڑھا لکھا نہ ہونے کی وجہ سے میں وہ بورڈ نہ پڑھ سکا-وہ مجھے دونوں بازوؤں سے کھینچتے ہوئے دفتر میں لے گئے – اس دوران وہ مجھ پر آوازے کستے او ایجنٹ ،ایجنٹ – وہاں پر آگے ،پیچھے ہرطرف سے میری تصویریں اتاری گئیں – پھر مجھے ایک دوسری عمارت میں لے جایا گیا جہاں پر کال کوٹھڑیاں تھیں اور ان پر نمبر لگے ہوئے تھے- ان میں سے ایک کال کوٹھڑی میں مجھے ڈال دیا گیا- ‘‘

وسیم ابو شہلا نے بتایاکہ انہیں معلوم نہیں تھاکہ انہیں کس تفتیشی مرکز میں رکھاگیاہے ان کا کہناتھا’’آدھ گھنٹے بعد دو افراد کال کوٹھڑی میں داخل ہوئے، انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور مجھے اوپر والی منزل کے ایک دفتر میں لے گئے – جہاں پر بیٹھے ہوئے شخص نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں مغربی کنارے میں آنے کے لئے ’’پاس ‘‘ کس نے دیا اور تم مغربی کنارے میں کیسے آئے ہو –

میں نے واضح کیاکہ رام اللہ میں مجھے وزارت صحت کی طرف سے اجازت نامہ دیا گیا – تفتیش کار نے کہاکہ تمہیں کون لایا ہے ؟ میں نے کچھ بولنا چاہا تو تفتیش کار نے کہاکہ زیادہ بکواس مت کرو اور اس نے مجھے ایک تھپڑ رسید کردیا- اس تفتیش کے بعد مجھے دوبارہ کال کوٹھڑی میں ڈال دیاگیا- پھر تقریباً دو گھنٹے کے بعد دوبارہ مجھے تفتیش کے لئے اوپر والی منزل پر لایا گیا- لیکن اس وقت کوئی دوسرا تفتیش کار تھا- اس نے اپنی تفتیش کاآغاز کرتے ہوئے کہااوشہزادے یا پھر ہم آپ کو الشیخ ( مولانا ) کہیں ،آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو یہاں پر کس لئے لایا گیاہے – کیونکہ آپ جاسوس ہیں- ابو شہلا کا کہناتھاکہ جب میں نے یہ بات سنی تو میں حواس باختہ ہوگیا- میں نے جواب دیا میں وہ ہوں جس نے اسرائیلی جھنڈے کو زمین بوس کیا مجھے تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ میں جاسوس اور ایجنٹ ہوں تو تفتیش کار نے کہاتم سرایا القدس کے کمانڈر ابو انس غندور کے ایجنٹ ہوں – تم اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھے ہو ، تم اس کے لیے مغربی کنارے میں رقوم لاتے ہو جس سے اسلحہ خریدا جاتاہے -‘‘

ابو شہلا کا کہناتھا’’میں نے وضاحت کی کہ میرے پاس صرف 2400ملین ہیں جو میں اپنے علاج کے لیے لایاتھا- میرامقصد 2400شیکل (اسرائیلی کرنسی )تھا- میں نے یہ بات اہلیان غزہ کے لہجے میں کہی تھی لیکن میرے ان الفاظ کو غلط رنگ دیتے ہوئے الزام لگادیا گیا کہ میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) سے 2400ملین شیکل لے کر آیا ہوں جو میں نے مغربی کنارے میں اپنے لوگوں کو تقسیم کئے ہیں-میں نے  بڑی وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن میری بات پر کان نہ دھرا گیا-‘‘

 ابو شہلا نے مزید بتایاکہ کال کوٹھڑی میں 15دن مسلسل ہر روز نیا تفتیش کار ان سے تفتیش کرتا- ان پر گالیوں اور تشدد کے تمام حربے استعمال کئے گئے – ایسی ایسی گندی گالیاں اور الفاظ استعمال کئے گئے کہ ان کودہرانے میں شرم محسوس ہوتی ہے – ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ غزہ میں محمد دحلان کی فلسطینی سیکورٹی فورسز اور حماس کے درمیان جب لڑائی ہوئی تو انہوں نے فتح کے کارکنوں کے خلاف جاسوسی کی اور انہیں گرفتارکرایا-

وسیم ابو شہلا نے اسرائیلی جھنڈا اتارنے کے کارنامے کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’ میرا اس وقت تعلق فتح تحریک سے تھا ، میں نے یہ کارنامہ اپنے ملک اور اپنی تحریک کے لئے سرانجام دیا- مرحوم سابق فلسطینی صدر یاسرعرفات نے مجھے فوجی منصب دینے کا اعلان کیا – لیکن ان کے حکم پر عمل درآمد نہیں کیاگیا- میں نے آج تک نہ فتح کی سیکورٹی فورسز میں خدمات سرانجام دی ہیں اور نہ ہی حماس کی سیکورٹی فورسز میں خدمات سرانجام دی ہیں –

تشدد کئے جانے کے مختلف طریقوں کے حوالے سے ابو شہلا نے کہا’’ پلاسٹک کی چھوٹی کرسی پر بٹھا کر میرے ہاتھ کرسی کے پیچھے باندھ دیئے جاتے ، ایک کرسی سامنے رکھ دی جاتی اور میری ٹانگیں سامنے والی کرسی کے سوراخوں میں ڈالی جاتیں اور پھر ٹانگوں پر تشد د کیا جاتا -جب آرام کی غرض سے میں اپنی گردن نیچے کرتا تو میرے سرپر ڈنڈا مارا جاتا- ‘‘

وسیم ابو شہلا نے بتایا کہ کال کوٹھڑی کے دروازے کے دریچوں میں سے وہ دیکھتے تھے کہ کس طرح ایک بوڑھے شخص کو جس کی عمر 60 برس سے کم نہیں تھی اسی طرح کرسی پر بٹھا کر اس پر تشدد کیا جاتا- انہوں نے ایک قیدی پر تشدد کئے جانے اور اس کے چیخنے کی آوازیں سنی جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ وہ قیدی چلارہاتھاکہ میرے گلے میں آگ لگی ہوئی ہے ، مجھے پانی چاہیے ، میں پیاس سے مرجاؤں گا ، اللہ کے واسطے مجھے پانی دو ، اس کے جواب میں اسے گالیاں دی جاتیں –

وسیم ابوشہلا نے کہاکہ زندگی میں انہوں نے کبھی کسی سے بغض وعدوات رکھنے کا سوچانہیں لیکن آج ان لوگوں نے میرے سینے میں بغض و عداوت کی آگ بھڑکادی ہے – میرا اڑھائی سال کا بیٹا جب بڑا ہوگا تو کیا وہ ان لوگوں سے انتقام نہیں لے گا جنہوں نے اس کے باپ پر اس قدر ظلم وتشدد کیا ہے-

انہوں نے مزید کہاکہ جب انسانی حقوق یا ریڈکراس کے نمائندے ملاقات کے لئے آتے تو قیدیوں کو دھمکی دی جاتی کہ اگر تم نے انسانی حقوق کے نمائندوں سے کچھ ذکر کیا تو ان کے جانے کے بعد تمہاری خیر نہیں ہوگی- قیدیوں کو خبر دار کیا جاتا کہ ملاقات کے کمرے میں کیمرے نصب ہیں اور تمہاری ہر بات اور نقل و حرکت ریکارڈ کی جا رہی ہے – انسانی حقوق کے نمائندوں کے دورے کے وقت جیل کے کمروں میں مٹھائی، پھل اور سگریٹ کے پیکٹ رکھ دیئے جاتے – یہ چیزیں قیدیوں کی رقوم سے ہی خریدی جاتیں جو جیل اہلکاروں کے پاس امانت کے طور پر رکھی ہوئی ہوتی تھی –

ابو شہلا نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ انہوں نے قید کے دوران دو مرتبہ خودکشی کی ناکام کوشش کی- ایک دفعہ انہوں نے اپنی قمیص سے گلے میں پھندا ڈال کر لٹکنے کی کوشش کی لیکن وہ قمیص چھوٹی تھی – دوسری مرتبہ باتھ روم میں پڑے ہوئے استرے سے انہوں نے اپنی شہ رگ کاٹنے کی کوشش کی لیکن دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے سیکورٹی گارڈ کو شک گزرا جس کے باعث یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی – انہوں نے خودکشی کی کوشش نفسیاتی اور جسمانی تشدد سے بچنے کے لئے کی – وہ تشدد کے باعث پاگل پن کی حد تک پہنچ چکے تھے کیونکہ انہیں کوڑا کرکٹ پھینکنے والے ڈرم میں قیدکردیاگیاتھا- چھت کے ساتھ الٹا لٹکا کر ان پر تشدد کیاجاتا- بجلی کے تار سے انہیں مارا جاتا- تشدد کرنے کے بعد ان کے جسم پر ٹھنڈا پانی چھڑکا جاتا تاکہ تشدد کے نشانات جسم پر نمایاں نہ ہوں –

 قید کے آخری دنوں میں تفتیشی مرکز میں موجود ڈاکٹروں کو معلوم ہواکہ وسیم ابو شہلا کے پاؤں کا زخم خراب ہوگیا ہے کیونکہ اس میں کیڑے پڑچکے تھے – جیل اہلکار وں نے ابو شہلا سے ڈیل کرنا شروع کردی – ان سے کہاکہ انہیں اس شرط پر رہا کرکے غزہ بھیج دیا جائے گا کہ وہ ’’انجیلی ‘‘ ہسپتال سے ڈس چارج سلپ پر دستخط کریں اور اقرار کریں کہ پاؤں کے زخم کی خرابی کے ذمہ دار وہ خود ہیں-

وسیم ابو شہلا قید سے رہائی پانے اور اپنے اہل و عیال سے ملنے کے لئے ہر شرط ماننے پر تیار تھے انہیں فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ انجیلی ہسپتال لے جایاگیا جب وہاں پر ڈاکٹرنے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں ڈس چار ج ہونا چاہتے ہیں تو انہوں نے ڈیل کے مطابق حقیقت چھپاتے ہوئے کہاکہ وہ علاج کے لئے اردن جانا چاہتے ہیں- ڈس چارج سلپ پر دستخط کرنے کے بعد وسیم ابو شہلا کو چھوڑ دیا گیا – پھر اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’’بتسلیم ‘‘ کے دو وکیلوں کی مداخلت سے بیت حانون کی راہداری کے ذریعے ابو شہلا کو غزہ پہنچا دیاگیا-

غزہ میں آج بھی وسیم ابو شہلا خوف و ہراس کا شکار ہیں انہیں 22مئی کو غزہ پہنچنے کے بعد آج تین روزکے دوران پانچ دھمکی آمیز کالیں موصول ہوچکی ہیں جن میں کہاگیاہے کہ اگر انہوں نے ذرائع ابلاغ کو کچھ بتانے کی کوشش کی تو وہ لوگ غزہ میں بھی اس کے پیچھے پہنچ جائیں گے اور انہیں قتل کردیں گے –

وسیم ابو شہلا نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ’’میں نے اپنی اہلیہ کو کہاکہ وہ گھر میں بینگن نہ پکائے کیونکہ اس سے مجھے جیل کا کھانا یاد آتاہے- میں نے گھر سے پلاسٹک کی تمام کرسیاں اٹھادیں ہیں کیونکہ میں پلاسٹک کی کرسی دیکھتاہوں تو مجھے جیل میں مجھ پر کیا جانے والا تشدد یاد آجاتا ہے-‘‘

غزہ پہنچے کے بعد ابو شہلا کی ٹانگ کا آپریشن کرکے اس ہڈی کو نکال دیا گیاہے جس میں پیپ پڑ چکی تھی – یہ پیپ پوری ٹانگ میں پھیل جانے کا خطرہ تھا جس کے باعث پوری ٹانگ کاٹنی پڑجاتی – ہڈی نکالے جانے کے بعد ابو شہلاکی پنڈلی گوشت کا لوتھڑا بن چکی ہے-

مختصر لنک:

کاپی