غزہ پر صہیونی جارحیت تینوں میں سے ایک مقصد بھی حاصل نہ کرسکی- فلسطینی میڈیا نے اسرائیل کوایکسپوزکرنے میں شاندار کردار ادا کیا- گیلادشالیت کا انجام رون اراد کی طرح کا ہوسکتاہے جس کی صرف ہڈیاں اسرائیل کو ملیں-
ان خیالات کا اظہار’’ عوامی مزاحمتی کمیٹی ‘‘کے ترجمان ابو مجاہد نے مرکزاطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- ان کے انٹرویو کا اردو ترجمہ زائرین کے پیش خدمت ہے –
صدر محمود عباس کو براہ راست جوابدہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے مغربی کنارے میں اسرائیل کے خلاف برسرپیکار مزاحمت کاروں کو نشانہ بنانے اور ان کوگرفتار کرنے کی کارروائیوں کو آپ کس اندازسے دیکھتے ہیں؟
مجاہدین کا تعاقب مجرمانہ حرکت ہے اور ان کو ہلاک کرنا بہت بڑی غداری ہے- اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فلسطین سے غداری ہے- مزاحمت کاروں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں شرمناک حرکت ہیں- دنیا اور آخرت میں ذلت مجرموں کا نصیب ہوگی- یہ کارروائیاں فلسطینی عوام کے جذبات کو مجروع کررہی ہیں- کیا ایک قوم پرست کے لئے یہ معقول بات ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف برسرپیکار
مزاحمت کارکی پیٹھ میں چھرا گھونپے- کیا معزز شہریوں کو گرفتار کرنا قوم پسندی ہے –
خطرناک بات کیا ہے ؟
خطرناک بات یہ ہے کہ مزاحمت کاروں کا تعاقب ایک طریقہ کار بن گیاہے- بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دوجماعتوں کا آپس میں تنازعہ ہے- ایسی بات نہیں، بلکہ یہ مزاحمت کے خلاف اعلان جنگ ہے- جواوسلو اور روڈ میپ کے منصوبوں کا حق واجب ادا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے- یہ جنگ فلسطینی سیکورٹی فورسز کی اعلی قیادت نے اپنی حلیف قابض اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر مزاحمت کاروں کے خلاف مسلط کی ہے- جنگ کی نگرانی امریکی جنرل کیتھ ڈائٹون کررہے ہیں-
محمود عباس اور سلام فیاض کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کے مطالبے کئے جا رہے ہیں- آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب :تاریخ کبھی بھی عوام کے خلاف صہیونی حلیف کو معاف نہیں کرے گی- مزاحمت فلسطینی عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے اورجو بھی اس کے خلاف سازش کرے گا وہ اسے کبھی نہیں چھوڑے گی –
سوال :فلسطینی مزاحمتی جماعتوں کا ان جرائم کے خلاف کیا موقف ہے ؟
جواب : فلسطینی سیکورٹی فورسز کے جرائم کے خلاف ایک مزاحمتی جماعتوں کا موقف ہے- ہم نے فلسطینی اتھارٹی کی مزاحمت کے خلاف جنگ کے حوالے سے مزاحمتی جماعتوں کو متحد ہونے کی دعوت دی ہے تاکہ فلسطینی اتھارٹی سے مزاحمت کے خلاف جنگ بند کرنے اور فلسطینی جماعتوں کو مزاحمت کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیے جانے کا مطالبہ کیا جائے اور اس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسرائیلی ریاست کے امن کے لئے مجاہدین کے خلاف جنگ بند کرے-
2008ء کے خر میں اسرائیل کی طرف سے غزہ کے خلاف کی جانے والی جارحیت کو آپ کیسے بیان کریں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ کے خلاف وسیع پیمانے پر جارحیت کی گئی جس کا مقصد فلسطینی عوام کی ثابت قدمی کو متزلزل کرنا اور اس کے حوصلے پست کرناتھا- لیکن فلسطینی عوام نے ثابت قدمی کا شاندار نمونہ پیش کیا- انہوں نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت جاری رکھی جو مزاحمت کی کامیابی کا راز ہے- اسرائیل نے پہلے ہی حملے میں ان تمام ذرائع کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جو مزاحمت کی مدد کرتے ہیں- اس نے فلسطینی ایگزیکٹو فورسز کے دفاتر کو نشانہ بنایا تاکہ غزہ کا امن تباہ ہوجائے اور وہاں پر انارکی پھیل جائے- لیکن حکومت اور مزاحمت نے اسرائیل کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے امن کے قیام کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کیا اور غزہ میں کسی قسم کی انارکی نہیں پھیلی- اسرائیلی حکومت نے ہمیشہ یہی بات کی تھی کہ فوجی آپریشن کا مقصد غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی حکومت کا خاتمہ ہے- اسی ہدف کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیلی فوج نے حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا- صہیونی فوج کاخیال تھاکہ دفاتر کو نشانہ بنانے سے حماس کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن فلسطینی عوام نے پہلے حملے کے بعد سے ہی جرات مندی سے حکومت کا ساتھ جو اس کی ثابت قدمی کا اہم ستون ثابت ہوا- حکومت نے جنگ کے دوران اپناکام جاری رکھااور اچھے انداز سے اپنی ذمہ داریاں اداکیں-
صہیونی فوج کاہدف مزاحمت کا خاتمہ بھی تھا لیکن وہ بہت تھوڑی تعداد میں مزاحمت کاروں کو شہید یا زخمی کرنے میں کامیاب رہی جبکہ دشمن بچوں، خواتین اور معصوم شہریوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بناتا رہا- اس نے پر امن شہریوں کے گھروں کو مٹی کا ڈھیر بنادیا- اس نے معصوم شہریوں کو قتل کرکے دعوی کیا کہ شہید ہونے والے مزاحمت کار تھے-
صہیونی جنگ کا ایک اور مقصد مزاحمت کاروں کے میزائل حملوں کو روکناتھا- لیکن اس میں بھی صہیونی کامیاب نہ ہوسکے اور مجاہدین کی جانب سے میزائل حملے جاری رہے- میزائل حملوں میں اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتارہا- صہیونی جارحیت کے تین مقاصد تھے جن میں سے وہ ایک بھی مقصد حاصل کرنے میں کامیا ب نہ ہوسکا-
کیااسرائیلی جارحیت کے دوران فلسطینی مزاحمت جماعتوں میں کوآرڈی نیشن تھا اور اس کوآرڈی نیشن کی سطح کیاتھا؟
فلسطینی مزاحمتی جماعتوں میں تعاون اعلی سطحی نہیں تھا البتہ میدان جنگ کے اندر مجاہدین کے درمیان مکمل ہم آہنگی، اتحاد اور تعاون تھا- اس اتحاد کا جنگ پر بہت اثر تھا- میرے خیال میں مزاحمتی جماعتوں کی اعلی قیادت میں مکمل ہم آہنگی ضروری ہے البتہ سیکورٹی کی وجہ سے مزاحمتی جماعتوں کے درمیان صرف میدان جنگ ہی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے-
غزہ پر ایک بڑی اسرائیلی جارحیت کی دھمکیاں ہیں؟ آپ ان دھمکیوں کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
میرا نقطۂ نظر ہے کہ اسرائیل سابقہ جنگ کی مانند اور جنگ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا- کیونکہ اس نے سابقہ جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے اور وہ دنیا کے سامنے ایکسپوز ہو چکا ہے- اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو دنیاکی پرواہ نہیں ہے لیکن میرے خیال میں اب اس کو پرواہ ہے- وہ دنیاکے سامنے اپنے آپ کو مظلوم اور فلسطینیوں کو جلاد کے طور پر پیش کرتا تھالیکن حالیہ جنگ میں فلسطینی میڈیا نے بہت شاندار کردار اداکیا-اور صہیونیوں کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کر دیا- اس لحاظ سے فلسطینی میڈیا قابل تحسین ہے- دوسری جانب اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو صہیونی ذہنیت سے کچھ بھی متوقع ہے-اگر اسرائیل دوبارہ جنگ مسلط کرتا ہے تو مزاحمت جارحیت کا جواب دینے کیلئے تیار ہے-
جنگ بندی کی باتیں ہورہیں ہیں- آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ہمارا موقف واضح ہے کہ جنگ بندی کی ضروریات ہیں- عوامی مزاحمتی کمیٹی، حماس اسلامی جہاد اور باقی مزاحمتی جماعتوں نے واضح کردیا ہے کہ جب تک جنگ بندی کی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں جنگ بندی قابل قبول نہیں ہے- رفح سمیت تمام راہداریاں کھولی جائیں، فلسطینی عوام کی ناکہ بندی ختم کی جائے اور ہر قسم کی جارحیت بندکی جائے- اسرائیل کو ان امور کی پابندی کرنا ہوگی ورنہ جنگ بندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-
اسرائیل اور دیگر اطراف سے پروپیگنڈا کیاگیاہے کہ حماس دوسری مزاحمتی جماعتوں کو اپنے مفاد کے لئے میزائل حملوں سے روکتی ہے – آپ کی جماعت بھی مزاحمتی ہے- میدان جنگ میں آپ نے اس طرح کی کوئی بات دیکھی ہے؟
ہم نے کوئی ایسی بات نہیں پائی- حماس یا غزہ کی حکومت نے کبھی مزاحمتی عمل میں مداخلت نہیں کی- ہم نے غزہ حکومت کی جانب سے مزاحمتی عمل میں کبھی کوئی مشکل نہیں محسوس کی- اسرائیلی افواہیں حماس کی ساکھ خراب کرنے کی سازش ہے- صہیونی حکومت ذرائع ابلاغ کو اس طرح کی افواہیں پھیلانے کے لیے استعمار کررہی ہے- حماس کی جانب سے ہمیں کبھی میزائل حملوں سے نہیں روکا گیا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے مزاحمتی عمل میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی-
فلسطینی حکومت کی جانب سے صہیونی جاسوسوں اور کارندوں کو جس طریقے سے ہینڈل کیا گیاہے آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
غزہ میں فلسطینی پولیس نے جاسوسوں کو بڑے اچھے طریقے سے قابو کیا- جنگ کے دوران جاسوسوں کے بہت سے نیٹ ورک کا انکشاف ہوا- پولیس اسٹیشنوں کو اسرائیل کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کے باوجودپولیس نے جنگ کے آخر تک مزاحمت کے پہلو بہ پہلو حصہ لیا-
فلسطینی مذاکرات کہاں تک پہنچے ہیں- کیا آپ کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ؟
فلسطینی مذاکرات کے متعدد دور ہوچکے ہیں- ہم امید کرتے ہیں کہ انتشار کی حالت ختم ہوگی- ہمیں مذاکرات کے آئندہ دور کی دعوت نہیں دی گئی- ہمارے لیے اہم بات اختلافات کا خاتمہ ہے- فلسطینی مفادات کے لئے تمام فریقوں کو لچک پیدا کرناہوگی-
آپ کی رائے میں مغربی کنارے میں ہونے والے واقعات کے بعد کیا اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے ؟
میرے خیال میں سلام فیاض کی حکومت زیادہ دیر تک قائم رہنے والی نہیں ہے- کیونکہ فتح سے بھی اس کے اختلافات ہوگئے ہیں اور مغربی کنارے میں ہمیشہ فتح کا کنٹرول رہاہے- اب سلام فیاض فتح سے اختلاف مول لے کر حکومت پر قابض ہیں- دوسری جانب پہلی مرتبہ فتح اور حماس نے متفقہ طور پر کسی حکومت کو مسترد کیاہے- سلام فیاض کی حکومت غیر آئینی قرار دینے پر حماس اور فتح کا اتفاق مثبت بات ہے- ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ سلام فیاض کی حکومت وہی کرے گی جو اسے صہیونی حکومت ڈکٹیشن دے گی- سلام فیاض حکومت کا اصولوں سے دور سے بھی واسطہ نہیں ہے- سلام فیاض فلسطینی عوام کی طرف سے مسترد ہیں- جس حکومت کو مجلس قانون ساز کا اعتماد حاصل نہیں ہے وہ آئینی حکومت نہیں ہے-
یرغمال اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہے؟
اسرائیل اس مسئلے میں یورپی ممالک کی مداخلت کے لئے کوشاں ہیں لیکن مزاحمت کاروں کی جانب سے پیغام واضح ہے- مزاحمت کاراپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہوں گے- گیلاد شالیت کے بدلے میں رہائی کے لئے لسٹ میں جن فلسطینی اسیران کے نام شامل ہیں ان میں سے کسی ایک نام کو بھی خارج نہیں کیا جائے گا- اگر اسرائیل مسئلہ حل کرنا چاہتاہے تو مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے پیش کردہ لسٹ کے مطابق فلسطینی اسیران کو رہا کردے – یہ پیغام یورپین یونین کو بھی مل چکا ہے اور جو بھی اس مسئلے میں مداخلت کرنا چاہتاہے اس کے لیے یہی پیغام ہے- مارچ میں بالواسطہ مذاکرات میں ہم نے یہ لسٹ اسرائیل کے حوالے کردی تھی- میرے خیال میں مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کی نیت صاف نہیں ہے- یہ مسئلہ ہمارے اسیران اور مجاہد صفت اسیران کا ہے- ہم اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے- ہمیں جو بھی قیمت ادا کرنا پڑی اپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہوں گے-
اسرائیل نے افواہ پھیلائی ہے کہ غزہ جنگ کے دوران گیلا دشالیت ہلاک ہوچکاہے یا پھر وہ زخمی ہے- آپ کا کیا ردعمل ہے؟
:ہم کوئی بھی معلومات قیمت حاصل کئے بغیر نہیں دیں گے- ہم نے بطور مزاحمت فوجی کو یرغمال بنایاہے- اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات دینے کی قیمت وصول کریں گے اور یہ قیمت مادی نہیں ہے بلکہ اس کی قیمت فلسطینی اسیران کی رہائی ہے- مزاحمتی جماعتوں نے ابھی تک اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا- اسرائیلی میڈیا اس طرح کی خبریں نشر کرکے گیلا دشالیت کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتاہے تاکہ مزاحمت کاروں کی جانب سے اس خبر کی تصدیق یا تردید کے متعلق کوئی بیان سامنے آئے-
کیا گیلاد شالیت کا انجام رون اراد جیسا ہوسکتاہے جس کی ہڈیاں اسرائیل کو ملی تھیں؟
اگر اسرائیل نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور مطالبات ماننے سے انکار تو گیلاد شالیت ایک اور رون اراد بن سکتا ہے-
اسرائیل اور مزاحمتی جماعتوں کے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پانے میں اصل رکاوٹ کیا ہے ؟
اصل رکاوٹ اسرائیل کی جانب سے ہے- وہ متعدد فلسطینی رہنماؤں کو رہا کرنے سے انکاری ہے- صہیونی حکومت اس بات سے بھی انکار ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین 1948ء کے کسی اسیر کو رہا نہیں کرے گااور تیسری بات اسرائیلی حکومت فلسطینی اسیران کو رہائی کے بعد ملک بدر کرناچاہتاہے- ہماری طرف سے یہ تینوں باتیں مسترد ہیں-