جمعه 09/می/2025

اسرائیل میں عدالتی اجازت کے ساتھ تشدد

ہفتہ 11-جولائی-2009

اسرائیلی فوجیوں نے تمام اخلاقی قدروں کو ایک جانب رکھتے ہوئے قہقہوں کی گونج میں پکارا ،’’ نمبر تین آگے آؤ ‘‘کمزور اور مضطرب قدموں کے ساتھ چھ فلسطینی بچوں میں سے ایک بچہ آگے بڑھتاہے تاکہ اس کے نحیف و نزار جسم پر لاٹھیاں برسائی جاسکیں، پھر وہ واپس جاتاہے- اس کے بعد دوسرے بچے کی باری آتی ہے اور فوجی اس کا اسی طرح مذاق اڑاتے ہیں اور اس بچے کو بھی ضربات پہنچائی جاتی ہیں –

چودہ گھنٹے تک رام اللہ سے تعلق رکھنے والے چھ بچے تشدد کا شکار بنتے رہے ، ان پر ڈنڈے برسائے گئے، انہیں ایسے انداز میں کھڑا ہونے پر مجبور کیاگیا جس سے انہیں تکلیف پہنچے، ان کو دھمکیاں دی جاتی رہیں، ان کو شدید ڈرایا گیا ،رام اللہ سے ان بچوں کو اس حالت میں گرفتار کیا گیا کہ وہ اپنے سکول سے گھر جا رہے تھے

اس واقعے میں شامل ایک بچہ محمد ابو عرکوب ہے، اس نے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا، انہوں نے ہمیں پانی پینے سے روکے رکھا، کھانے سے روکے رکھا ،تفتیش کے دورانیے میں انہوں نے ہمیں بیت الخلاء استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی- انہوں نے ہمیں ایک سے چھ نمبر دے رکھے تھے- اگر نمبر پکارے جانے کے بعد کوئی بچہ چند سیکنڈ کا وقفہ کردیتا تو اس کی دوہری پٹائی ہوتی اور اس پر دگنا تشدد ہوتا-

اس کے نتیجے میں ہم سب کے جسموں پر چوٹیں آئیں ، جگہ جگہ نشان پڑ گئے، اس واقعے کے کئی ہفتے بعد بھی اس کے اثرات پائے جاتے ہیں – حسب معمول اسرائیلی پولیس نے اس واقعے کی تحقیق کرنا شروع کردی جیساکہ وہ ہزاروں بار پہلے بھی کرچکے ہیں – زیر تفتیش فرد کے خلاف تشدد کے وہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں کہ جو ممنوع ہیں ، ایسی تحقیقات کا اس کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ انہیں بعد ازاں فراموش کردیا جاتاہے- ایسے واقعات کاظہور صہیونی حکومت کے ہاتھوں میں معمول کی بات ہے-

زیر تفتیش تشدد کی پالیسی ، ایسا امر ہے کہ جو تمام بین الاقوامی اصول و قوانین کی خلاف ورزی ہے – تشدد اپنی تمام شکلو میں ممنوع ہے چاہے عدالتیں انہیں قانونی قرار دیں یا اس کے حق میں قانون پاس کرلئے جائیں- وزارت اسیران نے عالمی ’’یوم عدم تشدد ‘‘کے موقع پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیاہے کہ ’’اسرائیلی قابض انتظامیہ کو اس میں کوئی تردد نہیں ہے کہ اپنی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے خلاف تشدد کا استعمال کرے، تشدد کا آغاز گرفتاری کے ساتھ ہی شروع ہوجاتاہے- جس پر تشدد اور فائرنگ کی فضا میں عمل درآمد کیا جاتاہے،قیدی کی  نکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے اور اس کے ہاتھ باندھ دیئے جاتے ہیں، پھر اسے فوجی جیپ میں ٹھونس دیا جاتاہے جہاں اس پر تشدد کیا جاتاہے- دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ حقارت کے ساتھ پیش آیا جاتاہے- ایک مرتبہ جب وہ تفتیشی مرکز پہنچ جاتاہے اس پر بدترین تشدد آزمایا جاتاہے تاکہ وہ تمام الزامات کو درست تسلیم کرلے-

وزارت نے نشاندہی کی ہے کہ تفتیش کے لئے اسرائیلی سو سے زائد طریقے استعمال کرتے ہیں اور تشدد کے ان حربوں کی وجہ سے اسرائیلی جیلوں میں ستر سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں- اسرائیلی جیلوں کے اندر شہادت پانے والوں کی مجموعی تعداد 196کے قریب ہے- انسداد تشدد عوامی کمیٹی، ایک اسرائیلی تنظیم ہے ، اس کا کہناہے کہ فلسطینی قیدیوں کے خلاف تشدد کا آغازان کی گرفتاری کے وقت یا اس وقت شروع ہوتاہے کہ جب وہ نظر بندی مراکز میں منتقل کئے جاتے ہیں یا جب انہیں جیل بھیجنے کے احکامات موصول ہوتے ہیں، قیدیوں کو تکلیف دہ انداز میں زنجیروں میں باندھا جاتاہے اگرچہ وہ کسی کو تکلیف نہ بھی پہنچا رہے ہوں تب بھی ان کے ساتھ سخت سلوک روا رکھا جاتاہے ، تشدد میں معصوم بچوں کا بھی استثناء نہیں رکھا جاتا، اگرچہ بین الاقوامی قانون میں ان بچوں کے لیے تحفظ فراہم کیا گیاہے ، اسرائیل کی انتظامیہ اور عدلیہ کو اس کا علم ہوتاہے اور وہ تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے – کمیٹی کے مطابق ایسے قیدیوں کی تعداد 600سے متجاوز ہے کہ جو بدترین تشدد کا نشانہ بنے ہیں-

انسانی حقوق کی دو تنظیموں بیت سلم اور جموکو نے اپنی کئی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ اسرائیلی سیکورٹی سروس سے تعلق رکھنے والے افراد فلسطینی قیدیوں کو نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی کبھار ایسے طریقے بھی استعمال کرتے ہیں کہ جو بین الاقوامی قوانین میں ممنوع ہیں –

 الاشقر نے بتایاکہ اسرائیلی حکومت نے تفتیش کنندگان کو یہ کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں، اسرائیلی عدالتیں قیدیوں پر تشدد کی اجازت بآسانی دے دیتی ہیں جوکہ تمام انسانی ،بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے- اسرائیلی تفتیش کنندگان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تشدد کیا تو کوئی بھی ان پر ہاتھ نہ ڈالے گا – انہوں نے کہاکہ اسرائیلی عدالتوں نے جو ہدایات جاری کی ہیں وہ انسانی حقوق اور چوتھے جنیوا کنونشن کی سراسر خلاف ورزی ہیں ،کیونکہ مذکورہ کنونشنوں میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت ہے –

الاشقر نے عالمی برادری کے اس طرزعمل پر شدید حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں جبر و تشدد کے درجنوں واقعات کے بارے میں رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں لیکن عالمی برادری نے اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا- یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بے دردی سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہاہے – اس سے بھی بڑھ کر پیچیدہ بات یہ ہے کہ صہیونی عدالتی نظام میں تشدد کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور جو لوگ تشدد کرتے ہیں انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوتا- یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ عالمی برادری فلسطینیوں پر کئے جانے والے ظلم وستم پر خاموشی اختیار کئے رکھتی ہے لیکن جیسے ہی گیلاد شالیت کی رہائی کا مسئلہ  تاہے -عالمی برادری فوری طورپر متحرک ہوجاتی ہے –

انٹرنیشنل کونوینٹ ان سول اینڈ پولیٹکل رائٹس کے آرٹیکل 7میں بیان کیاگیاہے کہ کسی کو بھی تشدد یا ظلم و زیادتی یا جبر و تشدد یا غیر انسانی رویے یا تحقیر کا نشانہ نہ بنایا جائے گا- اسی طرح تمام افراد کے شہری حقوق کی حفاظت کے لئے جو اصول وضع کئے گئے ہیں ان میں بتایا گیاہے کہ زیرحراست کسی بھی شخص کو بلاوجہ نظر بند نہ کیا جائے گا نہ ہی غیر انسانی سلوک کیا جائے گا- کسی قسم کے بھی غیر قانونی حالات تشدد کو جا ئز نہیں بناتے-

الاشقر نے ان 65 فلسطینی عورتوں کا ذکر کیا ہے کہ جن کو اسرائیلی جیلوں میں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھاگیا ہے ان کے اعزا اور اقرباء ان سے ملاقات نہیں کرسکتے- ان کو علاج کی سہولت حاصل نہیں ہے- ان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے، ان کو عام مجرم اسرائیلی عورتوں کے ساتھ رکھا جاتاہے جو ان کے ساتھ بدزبانی کرتی ہیں اور ان کے ساتھ ذلت سے پیش آتی ہیں-

رپورٹ کے مطابق 98 فیصد گرفتار شدگان پر تفتیشی مرکز وں میں تشدد کیا جاتاہے- ان ہی میں ایک طریقہ بھی ہے – جس میں فرد کو خراب ریفریجریٹر میں رکھ دیا جاتاہے- اس کے ہاتھ اس کے بازوؤں کے پیچھے باندھ دیئے جاتے ہیں پھر اس کے اندر ٹھنڈی ہوا پھینکی جاتی ہے یہاں تکہ اس کا درجہ حرارت صفر ہوجاتا ہے پھر اس کے سرپر گندگی کا ڈھیر رکھ دیا جاتا ہے –

مختصر لنک:

کاپی